امریکی صدر ٹرمپ الیکشن کیسے ہارے، بائیڈن کیوں جیتے؟ …اس حوالے سے آپ بہت سے ٹی وی ٹاک شوز دیکھ چکے ہوں گے۔ کالم اور تجزیے بھی شائع ہورہے ہیں، بیشتر باتیں کہی جا چکیں، میں آپ کو اس پر بور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایک نکتہ جس پر ہماری اپوزیشن جماعتیں زور دے رہی ہیں، اس پر بات ہوسکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ٹرمپ چلا گیا، اب عمران خان کی باری ہے۔ تاثر دینے کی کوشش ہوئی کہ دونوں ایک سے ہیں، اس لئے کا انجام بھی ایک سا ہوگا۔کیا حقیقت یہی ہے؟ صدر ٹرمپ چار سال پہلے نومبر 2016ء کے صدارتی انتخاب میں اپ سیٹ کر کے جیتے ۔ تب ہمارے بعض تجزیہ کاروں نے ٹرمپ اور عمران خان کا موازنہ کرنے کی کوشش کی ۔ سوال اٹھایا گیا کہ جیسے امریکہ میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے، اسی طرح کیا عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں؟اس پر مسلم لیگ ن کی قیادت اور رہنما بڑے بھنائے ۔ سختی سے اس مفروضے کو رد کیا اور اعلان کیا عمران خان وزیراعظم بننے کا خواب بھول جائے۔طنز ہوا کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ کسی نے کہا کہ عمران وزیراعظم کے لئے شیروانی تو کیااس کا ٹوٹا بٹن تک نہیں حاصل کر سکے گا۔مزے کی بات ہے کہ یہی ن لیگی رہنما پہلے عمران خان کاٹرمپ سے موازنہ کرکے مزہ لیتے تھے۔خیال ہوگا کہ ٹرمپ جیسا ناتراشیدہ ، بدگو شخص کیسے امریکہ کا صدر بن سکتا ہے؟ ٹرمپ کو ایک ناکام ماڈل سمجھ کر عمران خان پر پھبتی کستے تھے۔ ٹرمپ صدر بن گیا تو سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کے حامیوں نے فاتحانہ نعرہ لگایا کہ جیسے ٹرمپ امریکہ کاصدر بنا، ویسے عمران خان بھی یہاں جیتے گا۔ ن لیگیوں کے لئے مشکل پیدا ہوگئی کہ اب کون سا نیا بیانیہ تخلیق کریں؟خیر یہ تو اب ماضی کا حصہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس بار الیکشن ہار چکے ہیں ، ان کی شکست نے جہاں امریکہ اور یورپ میں ارتعاش پیدا کیا، وہاں اس سے پاکستانی اپوزیشن کو بھی طنزکرنے کا موقعہ ملا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ (بیس جنوری 2021تک وہ امریکہ کے آفیشل صدر ہیں) اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان میں کیا مشترک اور کیا مختلف ہے؟ دونوں لیڈروںمیں بعض باتیں تو ایک جیسی ہیں۔خوش قسمتی کی دیوی ان پر مہربان رہی ۔ دونوں کی جیت سے صرف دو سال پہلے تک کوئی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اگلا الیکشن جیت جائیں گے۔ ٹرمپ اچانک ہی سامنے آئے اور ری پبلکن امیدوار بنے، پھر ہیلری کلنٹن کی سامنے نظرآتی فتح چھین لی۔عمران خان بھی پاناما سکینڈل آنے سے پہلے اپنا تمام زور آزما کر نڈھال ہوگئے تھے۔ ان کا دھرنا اختتام میں بری طرح ناکام ہوگیا، تعداد تین چار سو تک پہنچ گئی تھی۔ پشاور سکول سانحہ نہ ہوتا تو خان صاحب کے حصے میںباقاعدہ قسم کی رسوائی اور ندامت آنی تھی۔پھر جوڈیشل کمیشن نے رپورٹ دی کہ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی ۔ عمران کے پاس کچھ نہیں بچا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب خیبر پختون خوا میں اصلاحات لائوں گا۔ میڈیا کے تجزیوں میں کہا جانے لگا تھا کہ 2018ء کا الیکشن تو نواز شریف جیت ہی لیں گے، اب تو 2023ء کی بات کی جائے۔ پانامہ نے البتہ سب بدل دیا۔ عمران خان اور ٹرمپ دونوں میں عجلت ، بدگوئی اور اپنے مخالفوں پر تیز دھار جملے پھینکنے کی عادت مشترک ہے۔ دونوں نے اپنے مخالف رہنمائوںکے لئے ایسے ناپسندیدہ، متنازع جملے کہہ رکھے ہیں جن کا کسی بھی مہذب سیاسی کلچر میں جواز موجود نہیں۔ ٹرمپ میڈیا سے نفرت کرتے تھے، اگرچہ فاکس نیوز گروپ ان کی حمایت میں کھڑا رہا۔ عمران خان بھی میڈیا سے نفرت کرتے ہیں، حالانکہ میڈیا کے بڑے حصے نے ان کی غیر مشروط حمایت کی اور جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی ٹیم میں مسلسل تبدیلیاں کرنا اور کلیدی عہدوں پر فائز ساتھیوں کو نکالتے وقت عزت نہ دینا بھی مشترک عنصر ہے۔ ٹرمپ کے کئی اہم ساتھیوں کو اپنی برطرفی کا ٹوئٹ یا میڈیا سے پتہ چلتا۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیراطلاعات کی تبدیلی حال ہی میں ہوئی، انہیں رپورٹروں سے پتہ چلا ۔ اپنی کہی بات کو قطعی اور’’ عالمگیر سچ ‘‘سمجھنا بھی کامن فیکٹر ہے۔ ٹرمپ کا اپنی ذات کے بارے میں یہی خیال تھا، ہمارے خان صاحب بھی ایسا ہی کچھ سمجھتے ہیں۔ نرگسیت پسندی کے باعث یہ ہوتا ہے۔ ایسا انسان اپنے وجود سے اتنی محبت کرنے لگتا ہے کہ خامیاں نظر سے اوجھل اور خوبیاں منظر پر چھا جاتی ہیں۔اس کے برعکس سیاسی مخالف شر اور برائی کا پیکر لگتے ہیں۔ عمران خان اور ٹرمپ میں بہت کچھ ایک دوسرے سے قطعی مختلف بھی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اعلانیہ قسم کے نسل پرست ہیں۔ ان کی انتخابی مہم پر بھی وائٹ مین سپرمیسی (سفید فام کی بالا دستی)کے اثرات نمایاں رہے۔عمران خان کی سیاست میں نسل پرستی یا قوم پرستی کے جذبات موجود نہیں۔ ٹرمپ کی تیز زبان کا نشانہ امریکی معاشرے کے کئی طبقات بنے۔ٹرمپ تارکین وطن پر گرجتے برستے رہے،اسلاموفوبیا کا شکار نظر آئے،میکسیکو سے آنے والوں پر تیر برساتے رہے، خواتین ان کے خاص کرم کا نشانہ بنیں، ٹی وی اینکرز کے حوالے سے نہایت معیوب جملے کہہ ڈالے۔ایسی باتیں جن کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کے زبانی حملوں کا ہدف سیاسی نظام، سٹیٹس کو کی روایتی سیاست کرنے والی جماعتیں اور شریف ، زرداری خاندان بنے ۔عمران خان نے کسی خاص لسانی، نسلی، علاقائی طبقے کی نمائندگی کی نہ کسی کو نشانہ بنایا۔ وہ معاشی اعتبار سے بھی کسی خاص طبقے کے نمائندہ یا مخالف نہیں۔ عمران کی سیاست طبقاتی کشمکش سے بے نیاز ہے۔ ان کی فکر میں لگتا ہے یہ اہم نکتہ مسنگ ہے۔ بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کر کے صنعت کاروں، سرمایہ داروں کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ مزدوروں، کسانوں میں انہیں خاصی پزیرائی ملی، دیہی ووٹ بینک ان کے جانے کے تین چار عشروں بعد تک پارٹی سے جڑا رہا۔پیپلزپارٹی نے ہمیشہ دل کھول کر ملازمتیں دیں، اگرچہ میرٹ ہر بار تہس نہس ہوا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جاتی رہیں۔ گندم کی امدادی قیمت کو تقریبا ً دوگنا کیا گیا اور دس بارہ سال تک اضافی گندم ملتی رہی۔بھٹو اور پیپلزپارٹی کے برعکس نواز شریف صاحب صنعتکاروں، تاجروں کے نمائندہ سمجھے جاتے رہے۔ ہمیشہ بزنس فرینڈلی بجٹ دئیے،ان کے ادوار میںسرکاری ملازمتوں پر بیشتر بین رہا، شہروں میں میگا پراجیکٹ بنے ۔ عمران خان صاحب خیر سے دونوں طبقات(صنعت کاروں، کسانوں)کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے۔ دونوں برباد ہوئے۔ ملیں بند ہوئیں،مزدور بیروز گار جبکہ کسان بھی رُل گئے ۔ عمران خان ٹرمپ کے برعکس تارکین وطن کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انہوںنے افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ دینے کی بات کی۔ عمران مذہبی اعتبار سے رائٹ کی طرف جھکائو رکھتے ہیں، ریاست مدینہ کو رول ماڈل قرار دیتے ہیں، مگر انہوں نے کسی مذہبی اقلیت کے خلاف کبھی بات نہیں کی۔ٹرمپ نے اپنی ناقد خواتین پر گھٹیا حملے کئے، خواتین اینکرز اور رپورٹرز کی تضحیک کی ۔ٹرمپ کے برعکس خواتین کے حوالے سے خان کا رویہ بہت شائستہ اور مہذب رہا۔ اپنی سیاسی مخالف خواتین کے بارے میں عامیانہ بات نہیں کی۔ ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سابقہ بیوی ریحام خان کی نہایت گھٹیا مہم کے باوجود عمران خان نے ایک بھی جوابی جملہ نہیں کہا۔ یہی مثبت رویہ جمائمہ کے حوالے سے اختیار کیا۔ صدر ٹرمپ اور عمران خان میں ایک بڑا ، جوہری نوعیت کا فرق ہے ۔ ٹرمپ نے اپنے ایجنڈے پر خاصی حد تک عمل کیا۔ خاصی حد تک ڈیلیور کیا۔ ٹرمپ ناتجربہ کارتھا، کئی بلنڈر کئے، کانگریس، میڈیا، عدالتوں ، پینٹاگون اور کئی دیگر اداروں کے ساتھ پنگے کئے۔ امریکی معیشت بہتر کرنے میں وہ مگرکامیاب رہا۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ تارکین وطن کو ٹف ٹائم دوں گا اور مقامی امریکیوں کے لئے روزگار کے مواقع کھولوں گا۔ اس پر عمل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام تر نالائقیوں، بدزبانی، جھگڑے اور کورونا وبا کے دوران بیڈ گورننس کے باوجود ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ساتھ جوڑے رکھا۔ سات کروڑ سے زیادہ انہوں نے ووٹ لئے ، جس کی مثال نہیں ملتی۔ ٹرمپ کے حامی دیوانہ وار اس کے لئے نکلے ۔ ٹرمپ کو جتنی بڑی مخالفت کا سامنا تھا، کورونا وبا میں ہلاکتوں کا عظیم بوجھ اس کے کندھوں پر تھا، کوئی اور ہوتا تو اپنے دس پندرہ فیصد ووٹ سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ ٹرمپ نے اپنا ووٹ بینک بڑھایا۔ اس کے مخالفین متحد تھے،غیر جانبدار ووٹرمخالفین سے جڑگئے ، ورنہ ٹرمپ کوہرانا آسان نہیں تھا۔ یہاں پر عمران خان بالکل مختلف انسان نظر آتے ہیں۔ اپنے سوا دو برسوں میں انہوں نے ڈیلیور نہیں کیا،عوام شدید مایوس اور فرسٹریٹ ہیں۔ عمران اپنے حامیوں کو ایک لالی پاپ تک نہیں دے سکے ، جس سے وہ لطف اٹھاتے۔ ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ ناپسند کرتی تھی، اس کی خواہش تھی کہ ٹرمپ الیکشن نہ جیت سکے، ممکن ہے کہیں تھوڑا بہت عملی کردار بھی ادا کیا گیا ہو۔ عمران خان الیکشن سے پہلے اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ رہے ہیں۔آئندہ بھی نہیں لگتا کہ عمران ازخود فاصلہ پیدا کریں گے۔ ٹرمپ کی نرگسیت پسندی آخر انہیں کھا گئی۔ عمران خان کی نرگسیت پسندی میں اسٹیبلشمنٹ کی حد تک عملیت پسندی کاعنصر موجود ہے۔ لگتا ہے یہی فیکٹر ان کی بقا کا ضامن ہوگا۔