پشاور (نیٹ نیوز ) چھ سال گزرنے کے بعد آج بھی سانحہ آرمی پبلک سکول کا درد آج بھی برقرار ہے ۔اس دن کو ملکی تاریخ کا المناک ترین دن قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 7 دہشتگردوں نے خون کی ہولی کھیلی اور 140 سے زائد طالبعلوں اور ان کے اساتذہ کو شہید کردیا،متعدد طالبعلم زخمی بھی ہوئے ۔ ملک حسن طاہرا عوان اس وقت نویں جماعت میں تھے ،ن کے بڑے بھائی ملک اسامہ طاہر اعوان شہید ہوگئے تھے ۔ملک حسن طاہراعوان نے بتایا آڈیٹوریم میں ٹیچر نے مجھے کیپ اوپر کر نے کو کہا (انہیں شک تھا کہیں ہم نے ہیڈ فون نہ لگائے ہوئے ہوں )میں نے جیسے ہی کیپ اوپر کی آڈیٹوریم ہال اندھا دھند فائرنگ سے گونج اٹھا۔میں نے بھاگنے کی کوشش کی جس میں میرے جوتے بھی اتر گئے ، شوز لینے واپس مڑا تو دہشتگرد کی نظروں میں آگیا اور اس نے مجھے اور میرے دائیں بائیں کھڑے ساتھیوں کو نشانہ بنایا ۔خوش قسمتی سے مجھ پر چلائی گئی گولی سر پر لگنے کے بجائے اوپر ہوئی کیپ پر لگی اور وہ اڑ گئی،جس کے باعث میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔بچ جانیوالے طالبعلموں کیلئے اس سانحہ کو بھلانا ناممکن ہے ۔ایک اور طالبعلم حسن بن قیصر کیمطابق دہشتگردوں نے میرے ہاتھ اور پیر پر فائرنگ کی جس کے بعد میں شدید زخمی ہوکر آڈیٹوریم میں ہی گر گیا ۔گارڈز گاڑی میں ڈال کر سی ایم ایچ ہسپتال لے گئے ۔اے پی ایس سانحہ میں شہید’’ بہادرایمل خان‘‘ کے بھائی احمد جان نے بتایا ایک خاتون استاد نے جب دہشتگرد سے بچوں کو نہ مارنے کی درخواست کی تو دہشتگرد نے کیمیکل پھینک کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہی انہیں جلادیا۔احمد اب پشاور سرحد یونیورسٹی میں سوفٹ ویئر انجینئرنگ کے طالبعلم ہیں ۔ایک اور خوش قسمت طالبعلم معین ملک کا کہنا ہے میں آڈیٹوریم سے بھاگنے کے بجائے وہیں شہید بچوں کے پاس لیٹ گیا تاکہ دہشتگردوں کو محسوس نہ ہو میں زندہ ہوں۔ جب دہشتگردآڈیٹوریم سے چلے گئے تو میں پھر وہاں سے نکلا۔