اگلے دن استاد غالب ؔ کا یہ شعر یاد آیا تو دل میں کئی خیالات اُبھرے : ہر بوالہوس نے حُسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی استاد اپنے اس شعر میں گلا کر رہے ہیں کہ اب کاروبارِ شوق کم ظرف اور بد ذوق لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے ۔ چنانچہ حسِ جمال اور ذوق ِ سلیم رکھنے والے نفیس طبع لوگوں کی قدروقیمت کم ہوتی جارہی ہے ۔ مرزا کے اس شعرسے معلوم ہوتا ہے کہ اُن سے پہلے کسی زمانے میں محبت اور اظہارِ محبت میں باقاعدہ کوئی طور طریقے اور مہذبانہ اقدار کا خیال رکھا جاتا تھا ۔اور اس میں ایک طرح کی خوش سلیقگی اور ادب آداب موجود تھے جو اُن کے بقول اُن کے عہد میں مفقود ہوگئے ۔استاد غالب ؔ نے یہ شعر قریب دو سو سال پہلے کہا تھا۔ اس حوالے سے اب جو حالات درپیش ہیں اسے سمجھنے کے لیے ہمیں غالبؔ کی فراست کی ضرورت نہیں ہے ۔ فی زمانہ بوالہوسی اور حسن پرستی کے جو مظاہرے اور مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں انہیں اگر مرزا کے زمانے کے’’ نامور ‘‘ بوالہوس بھی دیکھتے تو کانوں کو ہاتھ لگاتے جوتے بغل میں دبائے بھاگ لیتے ۔ دوسری طرف اس شعر میں استاد غالبؔنے جس بوالہوسی کا ذکر کیا ہے اُس کی تھوڑی سی تعریف بھی بتا دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ یعنی اگر خواہشِ قربتِ محبوب اس تعریف میں ’’ فال ‘‘ کرتی ہے تو پھر، گستاخی معاف ، ہمارے خیال میں مرزا خود بھی اس میںفال کرتے ہیں ۔ میرے سمیت مرزا کے دیگر مداحو سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ لمس کی تمنا اور قُرب کی خواہش وغیرہ تو ہمیں خود استاد کے کلام میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ بلکہ اس حوالے سے جو مضامین مرزا نے باندھے ہیں وہ ہمیں کہیں اور نہیں ملتے ۔ یہ شعر جنابِ مرزا نے غالباً اپنے بارے میں ہی ارشاد کیا تھا، ’’ مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس۔۔زُلفِ سیاہ رُخ پہ پریشاں کیے ہوئے۔‘‘ ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو مرزا کو محبوب کے پائوں کا بوسہ لینے کی بھی شدید خواہش تھی بس خدشہ یہ تھا کہ ایسی باتوں سے محبوب کہیں بدگماں نہ ہوجائے ۔ ( گویا اس پر بھی اُس بد نصیب کو بدگماں نہیں ہونا چاہیے) ۔ دوسری طرف حضرت ناکردہ گناہوں کی حسرت کی داد بھی مانگتے رہے ۔سو ایسے نفیس خیالات کے ساتھ بوالہوسی کا گلہ بھی چہ خوب است۔ گزرے سالوں میں بیسیوں ایسے عُشاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جن کی وصالِ یار کی آرزو اُن کی خواہش زندگی کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ گئی تھی۔لیکن پھر یہ آرزو پوری ہونے کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی ہم نے دیکھا کہ فریقین کے تعلقات کشیدہ، خراب اور پھر انتہائی TOXIC ہوتے ہوتے ختم ہوگئے ۔۔انہی راہوں میں خون سے خط لکھنے والے مجنووں کو بعد از وصل خون کے آنسو روتے دیکھنے کا موقع ملا ۔سالوں سال فراق کی ہار برداشت کرنے والے دو چار سال وصال کی ’مار ‘ برداشت نہیں کر سکے ۔ سو ! ’ اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے ‘ ۔ دراصل محبت کے کھیل میں ’پاکیزہ دوستی‘ اور’ سچی محبت ‘ جیسے الفاظ اپنا کمال دکھاتے ہیں ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے جتنے دھوکے اہلِ زمانہ اور صنفِ مخالف نے ان الفاظ سے کھائے ہیں اُس کی مثال پیش کرنا مُشکل ہے ۔ کاروبار محبت کے حوالے سے ان سے زیادہ پُرتاثیر الفاظ کوئی اور نہیں ملتے ۔ یہ وہ طلسماتی الفاظ ہیں جو اوائلِ تعلق میں حیران کُن اثر رکھتے ہیں۔وصال کی گھڑیوںمیں سر گوشیوں میں کہے گئے یہ الفاظ کانوں پر فضا سے گرتی نرم خوشگوار بوندوں کا سا اثر رکھتے ہیں۔لیکن جناب ! کہاں کی سچی محبت کونسی پاکیزہ دوستی۔۔بس مطلب پرستی اور موقع شناسی کی رنگ برنگی داستانیں ہیں جو مرد حضرات اکثر ایسے مواقع پہ دکھاتے سناتے رہتے ہیں ۔۔پروین شاکر یاد آتی ہیں ۔’’ عقاب کو تھی غرض فاختہ کے پکڑنے سے ۔۔جو گر گئی تو یوں ہی نیم جان چھوڑ گیا۔‘‘ اگلے دن سوشل میڈیا کے ایک مغربی ’ سیانے ‘ کی گفتگو سننے کو ملی ۔ موصوف بتا رہے تھے کہ عورت مرد کی دوستی سب ڈرامہ ہے اور ایسی دوستی کے پیچھے دراصل مر دکی قُربت کی خواہش پوشیدہ ہوتی ہے اور جیسے ہی اُسے ہلکا سا بھی ’’ گرین سگنل ‘ ملتا ہے وہ خوشی سے پاگل ہوجاتا ہے ۔ اُس سیانے کے بقول دنیا کے 99.9 فیصد مرد ایسا ہی سوچتے ہیں ۔تو صاحب ! جمہور عُلما ئِ حُسن و عشق اس امر پہ متفق دکھائی دیتے ہیں کہ بات اگر عورت مرد کی دوستی کی ہوگی تو اس ضمن میں مرد کے عزائم زیادہ قابل تحسین نہیں ہوتے اور یہ جب بھی بروئے کار آتے ہیں ان کے نتائج کوئی ایسے ’پاکیزہ ‘ نہیں ہوتے جن کا اوائلِ تعلق میں دعوی ٰ کیا جاتا ہے ۔ ایسی دوستی کے حوالے سے دنیا کے اکثر مرد ، خواہ اُن کا تعلق امریکا افریقہ سے ہو یا یورپ ایشیا سے ۔۔ ’ ایک پیج ‘ پر دکھائی دیتے ہیں ۔۔البتہ شادی ہی وہ پیمانہ ہے جو محبت کے دعوے میں آپ کے اخلاص کو ظاہر کرتا ہے باقی سب باتیں ہیں ۔ نوجوان شاعر عمار اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔ ر نگ و رس کی ہوس اور بس مسئلہ دسترس اور بس