مخلوق کو مخلوق پر حکمران بنایا گیا ہے۔ دونوں فریق امتحان گاہ میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ حکمران بننے کا شوق ایسا چور شوق ہے کہ اپنی ذات کی چوری میں سب سے پہلے اسی کو مجرم بتایا جاتاہے۔ روز نئی آفت‘ نیا مرحلہ غضب اور نئی خواہشات کا انجانا بوجھ اسے چھیڑ اسے ستا‘ یہ مشغلۂ حکومت ہوا کرتا ہے۔ پاکستان بہرحال پاکستان ہے‘ ایثار‘ قربانی‘ جدوجہد کے بعد ایک نظریاتی حقیقت اور جغرافیائی وجود ہے۔ ہوس کار فرنگی کی گود میں پلا مکار بنیا روز اول ہی سے اس پاک وطن کا دشمن ہے۔ اس مقدس وطن کے نظریے کا بیری ہے اور مسلمان کو تو وہ ملیچھ ہی بتاتا ہے۔ بھارت ان بدنیت لوگوں کا وہ مرکز ہے جو موقع بہ موقع مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی نظریاتی و جغرافیائی حقیقت کا منہ چڑانے کا کوئی بہانہ فراموش نہیں کرتا۔ بنیا ہے‘ خوف کا چلتا پھرتا پتلا لیکن کبھی کبھار ایسا گھمنڈی ہوتا ہے کہ جامے سے باہر جنون کی گٹھڑی سر پر لادے بٹر بٹر گھورتا پھرتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ قائد اعظم جیسا زیرک اور متحمل مزاج سیاست دان برصغیر کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مزاج سمجھتا تھا۔ گورے کی سیاسی نبض کی حرارت کو بھانپ سکتا تھا۔ دل کا وسیع تھا‘ درد ملت سے بھرا دل اس کا سیاسی اثاثہ تھا۔ فکری پرواز اتنی اونچی کہ عقابی آنکھوں سے اونچ نیچ دیکھ لیا کرتا تھا۔ عزیمت کا پہاڑ تھا‘ الفاظ کو حساسیت کی ترازو میں رکھ کر استعمال کرتا تھا۔ بہت محتاط اور پورے یقین سے اعلان کیا کہ ہندو اور مسلمانوں کا تو کچھ بھی مشترک نہیں۔ فرنگی اور بنیے دونوں قائد اعظم کو کسی طرح بھی جھٹلا نہ سکے۔ کیسے جھٹلاتے‘ جناح کا فکری پشتیبان اقبال تھا جو اپنی بصیرت کو خاک مدینہ و نجف کے کحل البصر سے منور رکھتا تھا۔ کچھ ہیں کہ اقتدار کے تازہ نشے میں اول فول کہے جاتے ہیں۔ انجام سے بے خبر لیکن ان کی لذت خود پرستی انہیں بے خبر کئے ہوئے ہے۔ بسا اوقات تو یہ جنم کے اندھے دکھائی دیتے ہیں۔ دشمن ابھی کل تو منہ کی کھا کر اوندھے منہ گرا ہے۔ سرحدوں پر غیور نوجوانوں نے تلوار کی آڑ پر لیا۔ فضائوں میں شاہینوں نے کرگسوں کی طرح گرایا۔ سمندر کی موجوں سے ذرا چپ سادھے پڑا ہے۔ منافقین نے پھر ہلہ شیری دی کہ چپ کیوں ہوئے اندر تو ہم ہیں نا‘ اب نیا ڈرامہ پرانی کہانی کے ساتھ شروع ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ ایک سائیں تھے لیکن پرانی وضع داری بہرحال ان کے خیال آداب میں موجود تھی پھر ایک پھرتیلا وزیر اعلیٰ ابن وزیر اعلیٰ آیا روایات شکنی اس کی حیرت افکار کی علامت تھی نیا سوانگ یہ رچایا کہ کوئی مسلمان مبلغ ‘ مصلح ‘ انسان دوست دیندار کسی بھی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دے کر مسلمان نہیں کر سکتا۔ جب تک وہ غیر مسلم 18برس کا نہ ہو جائے۔ صوبائی اسمبلی کے بندھے بندھائے غلام اراکین ہمنوا بن گئے۔ قانون کا غلاف چڑھانے کی پوری تیاری تھی۔ شور اٹھا‘ احتجاج ہوا معاملہ سرد پڑ گیا۔ یہ اس ملک میں ہوا ہے جس کی بنیاد کلمہ حق لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر اٹھائی گئی ہے۔ اس وطن کے شجر وجود کی آبیاری خون مسلم ‘ عفت صالحات اور معصوم نونہالوں کی قربانیوں سے ہوئی ہے۔ اس وطن کو وطن بنانے کے لئے لوگوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی ہے۔ یہ وطن مسلمانوں کا اور اس کا ہر زرہ شہداء کی امانت ہے۔ جذباتیت سے تعبیر نہ کیا جائے! احقرکی اس بات کو‘ یہ ایک روشن صداقت ہے۔لیکن کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ سندھ میں بسنے والے کئی علاقوں میں سادہ اور غریب مسلمان ابھی تک پاکستانی بینے کے قرض کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کی سرحدات سے متصل علاقوں میں غریب مسلمانوں پر ذبیحہ گائو پر پابندی ہے۔ اسی طرح بڑے ہندو زمینداروں کے ماتحت مسلمان ہاریوں کا رزق‘ عزت‘ جان ہر طرح سے خطرات کے قلعوں میں بند ہیں۔انسانی آزادی اور مذہبی حقوق کی پاسداری کا شور مچانے والے موروثی سیاست کار اور برساتی مینڈکوں کی سنگت میں شور اٹھانے والی این جی اوز کے کرتا دھرتا منہ پر گوند چپکا کر رکھتے ہیں کہ حق بات کہنا نہ پڑ جائے۔ سندھ کی سرزمین عبداللہ شاہ غازی کی روحانیت کی امانت نسل درنسل منتقل کر رہی ہے ۔ بھرچونڈی شریف اس امانت دین کی عصر حاضر میں سب سے بڑی امین خانقاہ ہے۔ محی الدین عبدالقادر الجیلانی غوث اعظم کے احیائے اسلام اور تجدید دین کے نصاب کی عملی صوفی یونیورسٹی جہاں فقرِ غیور کی مظہرشخصیات سجادہ ہدایت پر بیٹھ کر فقر محمدی علی صاحبہ الصلوٰت والتسلیمات کی روشنی کو عام کرتے ہیں۔ روشنی اندھیروں کو مات کرتی ہے ہدایت کی روشنی انسانیت کی فطری ضرورت ہے: ع بلھے شاہ فقر کل جہاں دا آسرا ای بھرچونڈی شریف کی خانقاہ کا صائب سجادہ اور اس کی بزم کا ہرندیم خلیق ہے، باشعور ہے۔ انسان دوست ہے روایتی خانقاہوں سے بالکل ہٹ کر‘ فقیروں سے محبت اپنے آپ کو پیر نہیں کہتا۔ فقیر کہتا ہے اور ہے بھی ایسے ہی۔ بڑے بوڑھوں کا احترام ہے خواتین کی عفت و عصمت کا بطور خاص اہتمام ہے کسی پر مذہبی جبر نہیں ہے۔ خواتین بچے اور بزرگ متاثر ہو کر ارادے باندھتے ہیں کہ ہمیں بھی اس دولت دین سے محروم نہ کرو۔ وہ خانقاہ میں آ کر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ دین ‘ دھرم‘ معاشرت‘ ثقافت‘ ازدواجی حیات میں یکسر تبدیلی آتی ہے۔ اپنی خوشی ہے‘ اپنی پسند ہے کہیں جبر نہیں ہے۔ نہ تلوار ‘ نہ ڈنڈا‘ ہر شخص اپنی مرضی سے اپنا دھرم تیاگتا ہے اور نئے دین میں پناہ لیتا ہے۔ اقلیت کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اکثریت کے حقوق پر پابندیاں عائد کرنا‘ سیاست کی مجبوریوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا بھی تو ریاست کی نااہلی شمار ہو گی۔ اقلیت کے حقوق کے سیاسی نعروں کی گونج اشاعت اسلام اور ضعیف و کمزور لوگوں کی داد رسی کارویہ ہرگز ہرگزترک نہیں کیا جا سکتا۔اسلام دین امن ہے۔ دین انسانیت ہے۔ دین حقوق ہے۔ لیکن مکاروں کے ارادے بہرحال خدائی تدبیر کی زد میں ہیں۔