5 جنوری1949 کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان نے ایک قرارداد منظور کی جس میں جموں و کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگرچہ اِس قرارداد میں ریاست جموں و کشمیر کے حل کے لیے ایک باقاعدہ فریم ورک طے کیا گیا مگر ہندوستان نے پہلے لیت ولعل سے کام لیا ، بعد میں اِستصواب رائے منعقد کرانے سے اِنکار کردیا ۔ کشمیر کے عوام آج بھی اقوامِ متحدہ کی اِن قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اقوامِ عالم کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا رہے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں ھندوستان کے دلائل کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ھندوستان نے ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اقوامِ عالم کو گمراہ کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ھندوستان کی تقسیم کے برطانوی فارمولے کے تحت ریاست جموں و کشمیر کا مہاراجہ عوام کی اکثریت کی خواہش کے مطابق اپنی ریاست کے پاکستان یا ھندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا پابند تھا مگر ھندو مہاراجہ نے اِس طریقہ کار کی خلاف ورزی کی۔ تاہم ھندوستان نے جِس ڈاکومنٹ کی بنیاد پر کشمیر کے الحاق کا دعوی کیا ہوا ہے، اِس کی صداقت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ برطانوی محقق الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب میں اِس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اور ان کے تحقیقی کام سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت نے Accession of Instrument کا طریقہ کار مکمل ہونے سے پہلے ہی کشمیر میں اپنی فوج بھیج دی تھی۔ ایلسٹر لیمب نے اسے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔ "... تاہم تمام اکاؤنٹس اس بات پر متفق ہیں کہ 27 اکتوبر کی صبح سری نگر کے لیے ہندوستانی فوجیوں کی ہوائی جہاز کے ذریعے منتقلی شروع ہوئی …... اگر مہاراجہ کا اپنے سفر کا بیان درست ہے، اور اس نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک سری نگر کا فضائی کنٹرول مضبوطی سے ہندوستان کے قبضے میں نہیں ہوگا، وہ ریاست میں واپس نہیں جائے گا، جِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی مداخلت درحقیقت الحاق کی رسمی کارروائیاں مکمل ہونے سے پہلے ہوئی تھی۔" ھندوستان کی دوسری اہم دلیل یہ ہے کہ1972 کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان کسی بھی عالمی فورم پر کشمیر کے معاملے کو نہیں اٹھا سکتا کیونکہ ھندوستان کے بقول شملہ معاہدے کے بعد کشمیر کی حیثیت کم ہو گئی ہے اور اب یہ عالمی ایشو کی بجائے دونوں ملکوں کا باہمی معاملہ ہے جِس پر صرف باہمی فورم پر ہی بات چیت ہوسکتی ہے۔ حالانکہ شملہ معاہدہ اِس قسم کی کوئی قدغن نہیں لگاتا بلکہ شملہ معاہدے کی پہلی شق کہتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصول اور مقاصد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو کنٹرول کریں گے جِسکا واضح مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو شملہ معاہدہ پر فوقیت حاصل ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھی دو فریقوں کے مابین ہونے والے معاہدے پر سبقت حاصل ہے۔ لہٰذا ھندوستان کا مؤقف، کہ شملہ معاہدے کے بعد پاکستان عالمی فورم پر کشمیر کا ایشو نہیں اٹھا سکتا، درست نہیں ہے۔ یہ ایک علیحدہ حقیقت ہے کہ شملہ معاہدہ پاکستان اور ھندوستان دونوں کو پابند کرتا ہے کہ کوئی بھی ملک یک طرفہ طور پر سرحدی حدود میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کرے گا جب تک کشمیر کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو جاتا۔ یہ بھی ھندوستان ہے جس نے اپنی فوج کے ذریعے سیاچن میں دخل اندازی کرکے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ یاد رہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 اور 35 اے تحت دیا گیا ،خصوصی سٹیٹس منسوخ کردیا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر (جس میں لداخ بھی شامل تھا) کو تقسیم کیا اور اس کی حیثیت کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں (یونین ٹیریٹریز) میں بدل دیا۔ یعنی جموں و کشمیر اور لداخ۔ جسکے نتیجے میں کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک میں مزید شدت اِختیار کر چکی ہے۔ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 کی نسبت شق 35 اے کے خاتمہ پر زیادہ تحفظات ہیں کیونکہ 35 اے کشمیروں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے جس کے تحت کسی بھی غیر مقامی شخص کو کشمیر کی شہریت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جاسکتا ہے۔ اس شق کے تحت کسی بھی غیر مقامی فرد کے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر بھی پابندی تھی ،البتہ کشمیری تمام ہندوستان میں کہیں بھی جائیداد خرید سکتے تھے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں۔ اس طرح مودی حکومت نے آئین کی شق 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور اِنڈیا کے درمیان ایک تصفیہ طلب معاملہ ہے جس کو اِنڈیا نے اقوامِ متحدہ کے فورم پر تسلیم کیا ہوا ہے جبکہ 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدہ میں بھی اِنڈیا اور پاکستان دونوں نے کشمیر کو ایک تصفیہ طلب مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر اِتفاق کیا کہ ان کے متعلقہ سربراہان مستقبل میں باہمی طور پر مناسب وقت پر دوبارہ ملاقات کریں گے اور اس دوران دونوں فریقین کے نمائندے مل کر پائیدار امن کے قیام اور تعلقات کو معمول پر لانے کے طریقوں اور انتظامات پر مزید بات چیت کریں گے۔ اَب جبکہ کشمیر کے تنازعہ کا حتمی طور پر حل طے ہونا باقی ہے تو 2016ء سے سارک کے سربراہی اِجلاس میں شرکت نہ کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کے متعلق ھندوستان کی پالیسی دونون ہمسایوں کے درمیان معمول کے تعلقات میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان اور اِنڈیا کے مابین پرامن اور دِیرپا تعلقات صرف اسی وقت ہی ممکن ہو سکتے ہیں جب تک کشمیر کے مسئلے کا تمام فریقوں کے لیے ایک قابلِ قبول حل تلاش ہو سکے۔