وزیراعظم عمران خان کے’منی پاکستان‘ کے حالیہ دورے میں وفاق اور سندھ حکومت کے اشتراک پر مبنی 1113 ارب روپے کے اعلان کردہ کراچی پیکیج کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ یہ ٹرانسفارمیشن پلان بھی سیاسی مخالفت اور بیان بازی کی نذر ہوتا نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر اطلاعات شبلی فراز کی توپوں کا رخ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرف ہے اورمخالفانہ بیان بازی مسلسل جاری ہے۔ اسد عمر نے وزیراعظم کے کراچی کے دورے سے ایک روز قبل ہی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری پر لعن طعن شروع کر دی تھی۔ پی ٹی آئی کے رہنما اس بات پر سخت معترض ہیں کہ زرداری کا پیٹ پھاڑنے والے شہبازشریف کیونکر کراچی آئے جبکہ شبلی فراز نے چندروز قبل یہ بیان داغ دیا کہ ہم کراچی پیکیج پیپلزپارٹی کی کرپشن کی نذر نہیں کر سکتے۔ اس طرح پیکیج کے اعلان کے دوسرے روز ہی دعوؤں کی سیاست کا آغاز ہو گیا۔ حکومت سندھ کہتی ہے کہ پیکیج میں ہمارا زیادہ حصہ ہے جبکہ وفاقی حکومت مصر ہے کہ نہیں ہمارا زیادہ ہے۔ گویا کہ کراچی جس میں حالیہ بارشوں کا 90 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا ایک مرتبہ پھر سیاست کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اسد عمر صاحب کا دعویٰ ہے کہ پیکیج کے 1113 ارب روپے میں سے وفاق کا حصہ 62 اور سند ھ کا 38 فیصد ہے۔ دوسری طرف سند ھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی پیکیج کے 1113 ارب میں سے 750 ارب سندھ کے ہیں جبکہ 363 ارب روپے وفاق کے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کا مزید کہنا ہے کہ اسد عمر نے حقائق کے منافی بات کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی دھینگا مشتی میں کراچی کے 2 کروڑ سے زائدعوام بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے محروم ہو رہے ہیں۔ ابھی پیکیج کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا کہ سندھ اور وفاقی حکومت ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہو گئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پیپلزپارٹی وہاں کی حکمران جماعت ہے، اس لیے معاملات کو درست کرنے کی ذمہ داری اسی جماعت کی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف وفاق میں حکمران جماعت ہے اور کراچی کی قومی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے 13 اس کے پاس ہیں، اسی طرح پی ٹی آئی کی سندھ اسمبلی میں کراچی سے اکیس نشستیںہیں۔ اس لحاظ سے وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پر کلیدی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ لڑنے مرنے کے بجائے معاملات کو ٹھیک کریں کیونکہ عوام نے ان کو کراچی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ویسے بھی پی ٹی آئی اور سند ھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا ایک دوسرے سے الجھنا کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ جب تک ایک دوسرے کے حصے کے بارے میں مخالفانہ اور متنازعہ دعوؤں پر مبنی بیان بازی کا سلسلہ جاری رہے گا کراچی کے معاملات کس طرح سلجھ سکتے ہیں؟۔ پی ٹی آئی کا2018ء کے الیکشن سے قبل سند ھ بالخصوص کرا چی میں سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ کراچی کے حالات خراب کرنے میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم برابر کی حصہ دار ہیں لیکن کسی حد تک اس معاملے میں ایم کیو ایم کا پلڑا بھاری ہے۔ کراچی کی مقامی حکومت پر جب سے ایم کیو ایم کا قبضہ ہے ’منی پاکستان‘ کی سڑکوں اور انفراسٹرکچر پر بہت کم پیسے خرچ ہوئے ہیں اور بلدیہ کو ملنے والے زیادہ تر فنڈز کرپشن کی نذر ہو گئے ۔ کراچی کی برسراقتدار پارٹی، پیپلزپارٹی کا بھی حال اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت، پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اور عسکری قیادت کی مشترکہ کاوشوں سے کراچی کی روشنیاں کسی حد تک بحال ہوئیں لیکن یہ جلد ہی ماند پڑنا شروع ہو گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کراچی کے 2کروڑ سے زائد عوام کے لیے انفراسٹرکچرپر کوئی رقم خرچ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور بزنس حب کے حالات شہری سہولیات کے حوالے سے خراب سے خراب تر ہوتے رہے۔ کرا چی میں آبادی کے دباؤ کے مقابلے میں شہری سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ معاملات اس حد تک خراب ہوئے کہ نئے آبادکاروں ، مقامی لوگوں اور قبضہ گروپوں نے جہاں خا لی زمینیں دیکھیں وہاں گھر تعمیر کر لئے ۔ صفائی کانظام بھی نہ ہونے کے برابر ہے، نالوں اور ڈرینز میں گندگی کے ڈھیروں کے علاوہ ان کے کناروں پر ناجائز آبادیاں کھڑی ہو گئیں جبکہ اس دوران صوبائی حکمران اور مقامی حکومت اپنے اللوں تللوں میں محو رہی۔ اب پہلے کی نسبت بے پناہ زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جن سے حکمرانوں کی ماضی کی کوتاہیاں روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہیں۔ حالیہ بارشوں سے کلفٹن اور ڈیفنس میں رہنے والی اشرافیہ بھی اسی طرح متاثر ہوئی ہے جیسے کہ ناظم آبا د ، کیماڑی،گلشن حدید، سرجانی ٹاؤن، ملیر ندی سے ملحقہ علاقے، کورنگی، لانڈھی، ڈیفنس، منظور کالونی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاوَن، آئی آئی چندریگر روڈ، صدر، کھارادر، نارتھ کراچی، ناگن چورنگی، گلبرگ، بفرزون، عزیز آباد، لیاقت آباد اور دیگر علا قوں کے باسی متاثر ہوئے ہیں حتیٰ کہ صوبائی وزراء اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی بھی طوفانی بارشوں کے منفی اثرات سے نہیں بچ سکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی کوئی ہوش کے ناخن نہیں لے رہا، اتنی بڑی آفت کے بعد بھی ہمارے متحرک سیاستدان نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیںاور اسی لیے ایک صفحے پر نہیں آرہے۔ کراچی کے دگرگوں حالات کو درست کرنے کے لیے سیاستدانوں کو بیان بازی کے بجائے ایک دوسرے سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اب بیانات کا وقت گزر چکا ہے کیونکہ ان بارشوں میں کراچی کا کچا چٹھہ سب کے سامنے کھل کر سامنے آ گیا ہے، اسی لیے کراچی پیکیج سیاست گری کی نذر کرنے کے بجائے اور مزید وقت ضائع کئے بغیر عملی تعاون کرنا پڑے گا بصورت دیگر قومی اقتصادیات کی شہ رگ کے حالات بہتر نہیں ہو پائیں گے بلکہ مزید بدتری کی طرف جائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کی روش اس لحا ظ سے ناقابل معافی ہے اور تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔