بھارت میں وزیر اعظم کو عدالتی استثنا حاصل نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود ملک کی کوئی بھی عدالت کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پیٹیشن سماعت کیلئے منظور نہیں کرتی۔ مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم ، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر بھی شامل ہے۔ اسی طرح میڈیا بھی سیلف سنسر شپ کا عادی ہے۔ اب اگر عدالت میں کوئی سیریس ریفرنس کسی متوقع وزیر اعظم کے خلاف دائر ہو، تو اسکو پارٹی خود ہی اس دوڑ سے الگ کرتی ہے۔ بھارت کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا رائو کی مدت حکومت میں یعنی 1991ء سے 1996ء تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔ وزیر اعظم ہائوس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر ایک سابق چیف جسٹس صاحب سے میں نے پوچھا تھا کہ اگر وہ ایکٹو ہوتے، تو شاید بابری مسجد بچ سکتی تھی ، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’کہ وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس ، دبائوسے زیادہ وزیراعظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔ اب اگر آئے دن اسکو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اسکی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کریگا؟ اور کیا کوئی افسر، سیکرٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اسکے احکامات بجا لائیں گے؟ کیا وہ اس انتخابی منشور کو ، جس کی وجہ سے عوام نے اسکو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟ ‘‘ ایک دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کیلئے قربان نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا رائوکو اراکین پارلیمان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔ چیف جسٹس کے عہدے کے وقار کا بھی بھارت کے نظا م میں کس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ جب 2000میں اسوقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بنگلور میں ایک تقریب کے دورن چیف جسٹسآدرش سین آنند کے رویہ کی بغیر ان کا نام لئے بالواسطہ شکایت کی تو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بذریعہ فیکس فوراً ان سے استعفیٰ مانگا۔ جب تک و ہ واپس دہلی آجاتے، واجپائی نے ان کو وزارت سے الگ کرکے نیا وزیر قانون مقرر کر دیا تھا۔ گو کہ واپسی پر جیٹھ ملانی ، جو خود بھی معروف قانون دان تھے، نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے معذرت ظاہر کی، مگر واجپائی کا کہنا تھا کہ ملک چیف جسٹس کے عہدے کے وقار پر کوئی حرف لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری حکومت اور جوڈیشری کے درمیان ایک ایشوبنا ہوا ہے۔ فی الوقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججوں پر مشتمل ایک کولیجیم ، نام سلیکٹ کرکے ، حکومت کو بھیجتی ہے، جو خفیہ اداروں سے کوائف وغیرہ معلوم کرکے صدر کے پاس سفارش بھیجتی ہے، جہاں سے تقرری کا آرڈر جاری ہوتا ہے۔ ایک طرح سے جج ہی ججوں کو سلیکٹ کرتے ہیں۔ جو کسی بھی جمہوری ملک کو جہاں پارلیمنٹ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، زیب نہیں دیتا ہے۔ اس عمل کو صاف و شفاف بنانے کیلئے حکومت نے پارلیمنٹ سے نیشنل جوڈیشل اپوئنٹمنٹ کمیشن بنانے کا ایک قانون پاس کیا تھا۔ جس کے ممبران میں وزیرا عظم، وزیر قانون،حکومت کے نامزد کردہ دو معروف قانون دان، چیف جسٹس اور دیگر جج شامل تھے۔ مگر چند سماعتوں کے بعد ہی سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے اسکو مسترد کردیا۔ حکومت نے بھی اس قانون کو پھر واپس لاگو کروانے کی ضد نہیں کی۔ یہ معاملہ بھارت میں ہنوز موضوع بحث ہے۔ پاکستان میں عدالتوں کو آمر حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً استعمال کیا ہے۔ مگر جمہوری حکمرانوں نے بھی کچھ کم کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے حامیوں نے 1997ء میں چیف جسٹس کے چیمبر اور سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا، کسی بے ضابط ملک میں بھی اسطرح کی حرکت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر 1998ء میں ایک آرمی چیف کو بیک جنبش قلم معطل کرنا اور پھر ایک سال بعد دوسرے آرمی چیف کو اسوقت معطل کرنا ، جب وہ غیرم ملکی دورہ سے واپس آکر جہاز میں ہی تھا۔ اور اس پر طرہ کہ جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ دینا بس یہی ظاہر کرتا ہے کہ طاقت کے نشے میں چور حاکم دیگر اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ان کی تذلیل کرارہا ہے۔ اسطرح کے حاکم کو پھر حالات کے پلٹتے ہی بدلہ کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ بھارت میں 1998ء میں بحریہ کے سربراہ وشنو بھاگوت کو حکومت کے ساتھ اختلافات کی بناپر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ ایڈمرل کا ٹائٹل بھی ان سے چھینا گیا۔ اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈس نے اپنے چیمبر میں بلا کر حکومت کے فیصلہ سے ان کو آگاہ کیا۔ واجپائی حکومت کی اتحادی پارٹی تامل ناڈو کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے اسکو ایک ایشو بناکر حمایت واپس لیکر حکومت ہی گرا دی۔ پاکستان کے برعکس بھارت میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔ پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیںکہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں ؟پاکستانی سیاستدانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر افغانستان ، ترکی یا عرب ممالک یا کوئی اور ملک ، اگر عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں ، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، مگر پاکستان کا عدم استحکام اس کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا ہے، ہم سب اسکی لپیٹ میں آتے ہیں۔ایک غیر پاکستانی شہری کی حیثیت سے اور اس ملک کے خیر خواہ ہونے کے ناطے اس ملک کے سیاستدانوں اور ادراوں کے سربراہوں سے گذارش ہے کہ اب اور زیادہ اپنے آپ کو جگ ہنسائی کا ذریعہ مت بنائو۔ حکومتیں تو آتی اور جاتی ہیں۔ اس پولاریزڈ سیاست سے آپ کیسے کشمیر میں ایک اعتماد کی فضا استوار کروا سکتے ہیں، جہاں اس وقت وہی حالت ہے، جو پاکستان کی1971میں تھی۔ جسطرح پاکستان دولخت ہوا،اسی طرح کشمیر بھی تین سال قبل نہ صرف دولخت ہوا، بلکہ وہاں غالب عوام کا تشخص اور انفرادیت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اور ان کی نظریں اسلام آباد پر ٹکی ہوئی تھیں۔ کشمیر میں احساس سپردگی یا سرنڈر کے زخم پر پاکستانی سیاست اور اسکی پینترے بازیاں مزید گہرا کرکے اس پر نمک اور مرچ چھڑکتی ہیں۔ جمہوی نظام کو چلانے کیلئے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہورت کیلئے آئین کو چلانے کیلئے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے تمام قومی اداروں کے مابین ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے وقار کا لحاظ ضروری ہے۔ تمام اداروں کو اپنے اپنے ڈومین میں رہنا چاہیئے تاکہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایات پیدا نہ ہو اور ان کی غیر جانبداری پرانگشت نمائی نہ کی جا سکے۔