سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت گلاسگو میں جہاں اس وقت 26ویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے، چاہئے تھاکہ جنوبی ایشیائی ممالک ماحولیاتی مسائل پر کوئی مشترکہ حکمت عملی اپناتے، اس پورے خطے میں ہر سال کہیں خشک سالی، تو کہیں سیلاب، تپش، سمندری طوفان اور اب جاڑوں میں ہوائی آلودگی کی وجہ سے سینکڑو ں افراد لقمہ اجل ہو جاتے ہیں۔ 2009میں کوپن ہیگن میں اسی طرح کی کانفرنس سے قبل اس وقت بھارت کے وزیر ماحولیات جے رام رمیش نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اقبال خان سے ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ دونوں ممالک ماحولیات سے متعلق مشترکہ موقف اپنائیں گے اور اس کے بعد اشتراک کی راہیں ڈھونڈیں گے۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ بجائے مشترکہ حکمت عملی کے 2014کے بعد تو ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ مشترکہ دریاوں کے پانی کو بھی روکنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ماحولیات کے معاملے میں دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک اسلئے اشد ضروری ہے کیونکہ دریائے سندھ اور اسکی معاون ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہو رہے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے کشمیر کے سب سے بڑے کلاہوئی گلیشیر کی ناک 22میٹر سے زائد پگھل چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار 2007کے ہیں ۔ اس کے بعد تو مزید تباہی آگئی ہوگی۔ اس کے اطراف کے چھوٹے گلیشیر تو کب کے ختم ہو چکے ہیں۔ ہمالیہ خطے کے 15,000گلیشیر دنیا کے چاربڑے دریاوں سندھ، گنگا، میکانگ اور برہم پترا کیلئے منبع کا کام کرتے ہیں۔ تقریباً چار ارب افراد کی زندگی ان کے پانیوں کی مرہون منت ہے۔ بھارت کے ایک سینئیر سائنسدان ایم این کول کے مطابق ان 15ہزار گلیشیروں میں 6,500بھارت میں اور پھر ان میں3,136کشمیر اور لداخ خطے میں ہیں۔ پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک شاخ کرگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادی کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرکے گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی سندھ طاس میں آباد ہے اور اسکی 80فیصد خوراک کی ضروریات سندھ اور اسکی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔ ان گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک ٹوک آمد و رفت اور مذہبی یاتراوں کو سیاست اور معیشت سے جوڑنے سے ہے۔ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری اس کی اہم مثال ہیں۔دو عشرے قبل تک کشمیر میں امرناتھ یاترا کیلئے محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے اور اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوئوں کیلئے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بنایا اور جواز پیدا کیا جاسکے۔ 1996ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے اس علاقہ میں 200 سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لئے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میں یاترا کرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی جب کوشش کی تو بزعم خویش ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششو ں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب 2005 ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر جنرل (ر)ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافہ کی تجویز پر اعتراض کیا تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیئے۔(جاری ہے)