رفتار سُست ہے‘ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کا جذبہ غالب‘ مگر صورتحال مایوس کن نہیں ؎ نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی ابتدائی دنوں کی بے عملی کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر فعالیت نظر آتی ہے‘ شر سے خیر کا ظہور ہو رہا ہے کم و بیش چالیس پچاس سال بعد ہسپتال‘ تعلیمی ادارے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے حکمرانوں کی ترجیحات میں اوّلیت اختیار کرنے لگے ہیں‘ چند ماہ قبل کوئی شخص سوچ نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں کرونا کی ٹیسٹنگ کٹس تیار ہوں گی‘ کوئی وینٹی لیٹر مقامی سطح پر بنانے کا سوچے گا اور ہمارے سائنسی و تعلیمی ادارے جمود کو توڑ کر واقعی تحقیق کی راہ پر چلیں گے ع عدو شرے برانگیز و کہ خیر مادراں ماشد گزشتہ روز لاہور کے ایکسپو سنٹر میں کرونا کے مریضوں کے علاج کے لئے تیار ایک ہزار بیڈ کا فیلڈ ہسپتال دیکھنے کا اتفاق ہوا یہ ہسپتال صرف نو دن میں پایہ تکمیل کو پہنچا‘ جبکہ پاکستان میں نو دن میں فائل ایک میز سے دوسری میز تک پہنچانے کے لئے سفارش اور نقدی کے پہیے لگانے پڑتے ہیں‘ فیلڈ ہسپتال کی انتہائی سادہ اور مختصر افتتاحی تقریب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے صحافیوں کو بتایا زکوٰۃ کے مستحق ایک لاکھ ستر ہزار خاندانوں کی اعانت کے لئے ستاسی کروڑ روپے کی رقم جاری کر دی گئی ہے اور یہ کل تک انہیں مل جائے گی جبکہ پچیس لاکھ مستحق خاندانوں کو کوائف کی تصدیق کے بعد دس ارب روپے کی امدادی رقم بھی جلد دے دی جائے گی۔ کرونا وبا کی روک تھام کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور اس ٹیم کی مستعدی اور چابکدستی پر کوئی شخص داد دینا بھی چاہے تو چپ رہنے پر مجبور کہ تعلق موصوف کا تحریک انصاف اور سرائیکی وسیب سے ہے اور ان کی جائز تعریف بھی صحافتی فیشن کے خلاف صرف کھانے اور لگانے والے حکمران کی ستائش روا ہے۔ یہ منفرد قوم خود تنکا توڑنے کو تیار نہیں مگر حکمرانوں سے ہمیشہ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی طلب گار رہتی ہے۔ عمران خان‘ بلاول بھٹو ‘ شہباز شریف اور دیگر حکمران و سیاست دان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ لوگ گھروں میں رہیں‘ بلا وجہ باہر نہ نکلیں ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں اور حفاظتی تدابیر پر عمل کریں مگر ایک محدود سمجھدار طبقے کے سوا’’باشعور قوم‘‘ کا ہر فرد خلاف ورزی پر تلا ہے‘ پہلے سندھ پھر پنجاب حکومت نے کاروبار پانچ بجے بند کرنے کا حکم دیا مگر مجال ہے کہ کوئی شخص رضا کارانہ پابندی کا سوچے پولیس اور رینجرز کی گاڑی نظر آنے پر سب کی دکان اور بولتی بند ہو جاتی ہے واقعی ’’ڈانڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ سب سے زیادہ مایوس مختلف مکاتب فکر کے مذہبی پیشوائوں نے کیا جو اس تباہ کن وبا کی ہلاکت خیزی کا احساس کر سکے ‘نہ مسلکی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتہادی سوچ کا اظہار اور نہ صدیوں سے طاری علمی جمود کو توڑنے پر آمادہ۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں نے یہ سوچنا گوارانہ کیا کہ خدانخواستہ اندرون و بیرون ملک تبلیغ میں مصروف ہزاروں لوگوں کی وجہ سے یہ وبا پھوٹی تو متاثرین‘ اسلام اور مسلمانوں بالخصوص مذہبی طبقے کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے نہ جمعہ کے اجتماعات اور نماز پنجگانہ باجماعت کے انعقاد پر بضد مذہبی پیشوائوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ ایک دوسرے سے وبا کا نشانہ بننے والے بے چاروں کا وبال کس کی گردن پر ہو گا اور نہ حکمرانوں میں یہ ہمت و حوصلہ کہ وہ خود کوئی فیصلہ کن اقدام کر سکیں‘علماء حکومت اور حکمران علماء کا کندھا استعمال کرنے کے خواہشمند۔ رسول اللہ ﷺ نے بارش کے دوران نماز گھروں میں ادا کرنے کا حکم دیا مگر ہمارے مذہبی پیشوا عالمگیر وبائی مرض کے دوران’’مسجد بند نہیں ہونے دیں گے‘‘ کا نعرہ لگا کر بھولے بھالے مسلمانوں کی صحت اور زندگی دائو پر لگا رہے ہیں ؎ زمن بر صوفی ومُلاّ سلامے کہ پیغام خدا گفتند مارا ولے تاویل شاں درحیرت انداخت خداو جبرائیلؑ و مصطفی ؐرا خدا کا شکر ہے کہ عوام اور مختلف طبقات کے بھر پور ’’عدم تعاون ‘‘کے باوجود وبا کا دائرہ محدود ہے اور مریضوں کی تعداد تاحال چند ہزار‘وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل لاک ڈائون پر مائل نہیں کہ غریب طبقے کی مشکلات بڑھیں گی۔ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد کرونا کی ہلاکتوں سے زیادہ ہو سکتی ہے یہ اندیشہ مگر موجود ہے کہ بے احتیاطی پھیلائو اور جانی نقصان کا باعث۔ حکومت کا مکمل لاک ڈائون سے گریزمحدود وسائل کے باعث ہے‘ کرونا نے سوچنے سمجھنے والے ہر انسان کو یہ باور کرا دیا ہے کہ دھن‘ دولت کے انبار کسی شخص کو دائمی راحت دے سکتے ہیں نہ کسی وبا سے بچانے میں مددگار۔ دوسروں کی مدد‘ صدقہ و خیرات البتہ اطمینان قلب کا باعث ہیںاور معاشرے کو کسی بڑے حادثے سے بچانے میں مددگار۔ جزوی لاک ڈائون کے دوران بھی بعض علاقوں میں بھوک کے ستائے لوگ بے چین و بے قرار نظر آنے لگے ہیں۔ ایک خاتون اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بتا رہی تھیںکہ کس طرح انہوں نے سڑک کے کنارے بیٹھے دوچار لوگوں کی مدد کرنا چاہی تو چند لمحوں میں درجنوں لوگ جمع ہو گئے جو امداد نہ ملنے پر گاڑی کے شیشے توڑنے پر آمادہ تھے‘ اگلے چند دنوںمیں یہ واقعات بڑھیں گے کہ ’’مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی‘‘۔ ملک کے خوشحال طبقے کا ذاتی مفاد اس میں ہے کہ گھروں سے نکل کر غریب اور نادار لوگوں تک اشیائے خورو نوش پہنچائے‘ بھوکوں کو کھانا کھلائے‘ ان کے بیمار بچوں کے علاج معالجے کا بندوبست کرے‘ خدا وہ وقت نہ لائے کہ بے روزگاری‘ بھوک اور بیماری کے ستائے مرد و زن تنگ آمد بجنگ آمد‘اپنے گھروںسے نکل کر وہ سب کچھ چھیننے کی کوشش کریں‘ جس کے بل بوتے پر بالائی طبقے کی شان و شوکت قائم ہے۔ عالیشان محلات‘ پرشکوہ دفاتر‘ مہنگی گاڑیاں اور دنیا جہاں کی نعمتیں۔ طبقاتی تفریق معاشرے میں پہلے ہی عام ہے‘ منڈی کی معیشت نے غربت و بے کسی میں اضافہ کیا اور امارت میں نمود ونمائش‘ فضول خرچی‘ بے رحمی اور ظلم کا عنصر داخل ہوا‘ ریاست نے اس تفریق کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتوں کو بھی منافع خور مافیا کے سپرد کر دیا‘ مزدور اور صنعتی کارکن کے حقوق کی نگہداشت سے دستکش ریاستی ادارے استحصالی طبقے کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں اور سماجی و معاشی تفریق میں روز افزوں اضافے کے آگے بند باندھنے سے قاصر‘ رفاہی ادارے اگر بروئے کار نہ آتے تو معاشرے میں موجود ظالمانہ سماجی و معاشی تفریق اب تک معلوم نہیں کیا گل کھلا چکی ہوتی۔ریاست اگر خوراک و علاج سے محروم لاکھوں خاندانوں کی دستگیری نہ کر سکی‘ رفاہی ادارے بے بس نظر آئے اور خوشحال طبقہ بے حسّی کی چادر تان کر سویارہا تو آتش فشاں پھٹنے کا اندیشہ ہے اندیشہ کیا غالب امکان ہے ؎ ہر گھر سے بھوکا نکلے گا تم کتنے بھوکے مارو گے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے امدادی پیکیج اپنی جگہ مگر اللہ تعالیٰ نے جنہیں مالی کشادگی سے نوازا ہے رضا کارانہ طور پر باہر نکلیں اور کئی روز سے گھر میں بے کار و بے روزگار بیٹھے لاکھوں لوگوں کے منفی ردعمل کا انتظار نہ کریں۔ ع حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں