مجھے پچیس سال پہلے کا وہ واقعہ بھی اچھی طرح یاد ہے جب لاہور اسلام آباد موٹر وے تیاری کے مراحل میں تھا، تو ہمارے شیخوپورہ ہی میں کسی گاؤں سے آئے ہوئے ایک لوہار ، جو شہر میں آ کے موٹر سائیکل مکینک بن گیا تھا،نے اپنی ویران سی کارگاہ (ورکشاپ) میں ہیلی کاپٹر کی باڈی تیار کی۔ اس میں موٹر سائیکل کا انجن فِٹ کیا، پھر اسے ٹیکسی بنا کر شہر سے چند کلومیٹر دور سے گزرتے موٹر وے پہ لے گیا، جہاں ابھی ٹریفک رواں نہیں ہوئی تھی۔ وہاں اس نے خود ساختہ ہیلی کاپٹر کو کسی ماہر پائلٹ کی طرح فضا میں اڑایا ۔ شہر کے ارد گرد چکر کاٹتے اسے پورے علاقے نے دیکھا۔ اپنے انٹرویو میں اس نے برملا کہا کہ مَیں ایک چھوٹی کار سے کم قیمت میں ہیلی کاپٹر تیار کر سکتا ہوں لیکن ہم نے اسے نہایت سہولت سے گرفتار کر لیا اور آج تک اس سے کوئی مثبت کام لینے کا سوچا بھی نہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے بھی گوجرانوالہ کے ایک ایسے ہی خرادیے کا ذکر کیا تھا، جس نے ایف سولہ میں استعمال ہونے والا ایک پرزہ، جو امریکا سے لاکھوں ڈالر میں ملتا تھا، چند ہزار روپے میں تیار کر دیا تھا۔ پھر چند سال قبل اس موٹر مکینک کو تو ہم سب نے میڈیا کی آنکھوں سے ملاحظہ کیا تھا، جس نے پانی سے چلنے والا انجن بنا دیا تھا۔ انھی دنوں دو برادران تو ایسے بھی سامنے آئے تھے، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک کم لاگت سے تیار ہونے والے چھوٹے سے پرزے سے ہر گھر میں پڑے واٹر ٹینک سے اس گھر کے استعمال کے لیے بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں بے شک اپنی خام حالت میں ہوں گی لیکن ایسے ہنر مندوں پہ تھوڑی سی توجہ اور مناسب سا بجٹ انوسٹ کر کے یقیناً بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اسی طرح ہر دیہہ میں پایا جانے والا نائی (حجام) کبھی ایک ادارہ ہوا کرتا تھا۔ وہ چلتا پھرتا پورے گاؤں کے بال بچوں کے بال تراشتا، بالغوں کی شیو بناتا، ناخن اتارنے کے لیے نھیرنا ہر وقت جیب یا رچھانی میں رکھتا۔ (مضبوط بیلٹ کی مدد سے زنانہ پرس کی طرح بازو میں لٹکتا چمڑے کا یہ چھوٹا سا تھیلا ایک دو مَیلے کنگھوں، نوکیلی قینچیوں، ایک عدد دھندلے سے شیشے، قسم قسم کے کثیر المقاصد اُستروں، اوزار تیز کرنے والی وٹی (سِل)، کسمیلے رنگ کے سال ہا سال چلنے والے کپڑے (دیسی ایپرن) ٹنڈ کرنے والی ٹوٹے منکے والی مشینوں، پھٹکڑی کی ڈھیلیوں ، داڑھی اور گردن پہ وَتر لگانے کے لیے کپ سائز کے چھوٹے سے بالٹی نما برتن سے لیس یہ بیگ گاؤں کی زبان میں رچھانی کہلاتا تھا) اس کے ساتھ وہ جراحت کے فن سے بھی بخوبی واقف ہوتا۔ شادی، بیاہ، ختنے ہوں یا قُل ساتواں، چالیسواں، پکوائی کا کام بھی اسی کے ذمے ہوتا۔ اس کی خاتون (نائن) اپنے زمانے کی مشّاق مشاطہ (بیوٹیشن) ہوتی، اور شوقین خواتین کی کنگھی پٹی، سَک سُرمہ، مساج اور بال گوندھنے کا فریضہ مہارت سے انجام دیتی۔ برات کے ساتھ بِد (ڈرائی فروٹ وغیرہ) اٹھا کے لے جانے اور شادی کے دونوں فریقوں میں ملنی کرانا بھی اس کے اہم فرائض میں شامل تھا۔ معاوضہ ان ہنر کاروں کا بھی ششماہی فصلوں پہ اناج ہی کی صورت ادا ہوتا۔ شادیوں، بیاہوں پر کچھ لاگ (انعام کی رقم) البتہ اضافی مل جاتے۔ ہم نے اپنے ننھیال میں جولاہوںکو تانا بانا بُنتے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آج بھی جب کبھی گلزار کی نظم ’مجھ کو بھی ترکیب سکھا دے یار جولاہے‘ سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں میں ساتھ ساتھ لگی کھڈیوں میں ریل گاڑی کے سے ردھم میں ڈوبی آواز، ایک خاص مہارت سے حرکت کرتے ہاتھ پاؤں نیز لکڑی کی گھوڑیوں (وہ لکڑی سے بنے سٹینڈز کو اسی نام سے پکارتے) کے اوپر دور تک پھیلی ہوئی دھاگے کی لہریں آنکھوں کے سامنے لہرا جاتی ہیں۔ گاؤں ہی کی کپاس سے دیہاتی مٹیاروں کے چرخوں پہ کاتے ہوئے سُوت سے وہ ایسا خوب صورت کھدر تیار کرتے، کھیسوں میں ایسے رنگ برنگے ڈورے ڈالتے کہ بڑے بڑے نام نہاد عاشقوں کو پیچھے چھوڑ دیتے، لیکن ہم نے کاٹن ملوں کے ان نہایت شریف اور بھلا مانس قسم کے پیش روؤںکی کسی بھی طرح کی مہارت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی بجائے صرف ان سے بزدلی، جہالت اور کم عقلی والے لطیفے ہی منسوب کیے۔ پھر ہر گاؤں میں ایک عدد میراثی بھی کثیر المقاصد خدمات انجام دیتا۔ چودھری کا حقہ تازہ کرنا، ڈیرے میں آئے گئے کے لیے لسی پانی لانا، شادی ، فوتگی کا سدّا لے کے گاؤں گاؤں گھومنا، شادی بیاہوں پہ رنگ برنگے سُوت اور مونج سے کئی کئی نمونے کی چارپائیاں بُننا اور سب سے بڑھ کے اپنی ہی قوم سے متعلق رنگ برنگے لطیفے سنانے کا فریضہ بھی انجام دیتا۔ ہر خاندان کا شجرہ اسے دونی کے پہاڑے کی طرح یاد ہوتا۔ مختلف خاندانوں کے رشتے ناتے کرانا بھی اکثر اسی کے ذمے ہوتا، گویا وہ ایک چلتا پھرتا میرج بیورو بھی تھا۔ شادی کے دن مقررکرانا، بَری کی ایک ایک چیز کا حساب رکھنا، نیز اس کی گھر والی کا شادی والے گھر میں ڈھولک اور میلوں ٹھیلوں پہ ڈھول کا اہتمام کرانا… گاؤں میںبجلی کی نئی نئی آمد کے زمانے میں میراثیوں کا ایک سات آٹھ سال کا لڑکا، جو شام ہوتے ہی چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو اکٹھا کر کے گاؤں کے ایک چوک میں لے جاتا، جہاں عوامی سہولت کے لیے سو پاور کا ایک بلب لگایا گیا تھا۔ وہ بچوں کوحیران کرنے کے لیے ایک دم بلب روشن کرتااور ساتھ ہی فلمی انداز میں بڑھک لگاتا: اِک بٹن دبّاں تے سارا پنڈ ساڑ دیاں… آج مختلف شعبوں اور محکموں میں معمولی معمولی اختیارات کے ذریعے لوگوں کے لیے عذاب بننے والے دفتریوں کو دیکھ کے مجھے وہی میراثیوں کا بچہ یاد آ جاتا ہے۔ آج درزیوں کے نخرے چَین نہیں لینے دیتے، اس زمانے میں درزی فیتہ لے کے کھیل کود میں ہی ناپ لے جاتا اور عید پہ جوڑا تیار ملتا۔ برتن بنانا، گندم پسوانا اور اناج کو گدھوں پہ لاد کے منڈی لے جانا کمہار کی ذمہ داریوں میں آتا تھا۔ دانے بھوننے والی بھٹی اور تنور کا کام کرنے والے چیر یا ماچھی کہلاتے۔ پھر وہ موچیوں کا ہنستا کھیلتا کثیرالافراد خاندان، جس کی کچھ نشانیاں آج بھی گاؤں میں موجود ہیں، سادہ سے چمڑے کو نقرئی اور طلائی تِلّے سے ایسے ایسے نوک دار زنانہ مردانہ کھُسوں میں ڈھالتا کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا۔ آج اس ماضی گیری کا مقصد محض یہ ہے کہ یہ رنگ برنگے فن کار بنیادی سہولتیں میسر نہ ہونے کے باعث شہروں کی جانب ہجرت کر گئے۔ وہی نائی شہر میں آ کے سیلون ، کیٹرنگ اور بیوٹی پارلرز میں مصروف ہو گئے۔ میراثیوں نے بینڈ بنا لیے، سٹیج اور میڈیا پہ انٹرٹینمنٹ کی ٹھیکے داری لے لی۔درزی ٹیلر ماسٹر بن گیا۔ اسی طرح جولاہے اور موچی بھی کلاتھ ہاؤسز اور شو سٹورز کے پروپرائٹرز بن گئے۔ بھولا بھالا کسان آج بھی سہولتوں کے فقدان کے باوجود اچھے وقت کے انتظار میں ہے۔ اس نے تو اپنے پساروں میں سجے پیتل، کَیں، تانبے کے برتن بھی سٹیل کی چمک دمک پہ قربان کر دیے۔ وہی برتن آج انٹیکس میں ہزاروں، لاکھوں میں بکتے ہیں۔ آج بھی ساہوکار اس کی طویل محنت اور خون پسینے سے اگائی گندم بارہ سو میں خرید کے اگلے ہی دن شہر میں بائیس سو میں جا بیچتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ اپنے کھیت اٹھا کے شہر نہیں لے جا سکتا۔ دھرتی سے جُڑت اس کے پاؤں کی زنجیر ہے۔ بقول عباس تابش: ؎ ہم ہیں سُوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں