خبروں کے مطابق ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سارک ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ شریمتی سُشما سوراج کا وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی سے آمنا سامنا تو ہُوا لیکن اُنہوں نے ہمارے وزیر خارجہ سے مصافحہ نہیں کِیا‘‘۔ ایک خبر کی سُرخی تھی کہ ’’ سُشما سَوراج ، شاہ محمود قریشی کو دیکھ کر آنکھیں چُرا کر چلی گئیں‘‘۔ دوسرے اخبار کی سُرخی تھی کہ ’’ بھارتی وزیر خارجہ ، وزرائے خارجہ کا اجلاس چھوڑ کر فرار ہوگئیں تھیںاور اُنہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے صِرف اتنا کہا کہ ’’ مَیں یہاں کسی سے جھگڑا یا لڑائی کرنے نہیں آئی‘‘۔ مجھے یاد آیا کہ ’’ سُشما سوراج جی اِس سے پہلے وزیر خارجہ کی حیثیت سے 8 دسمبر 2015ء کو پاکستان میں منعقد ہونے والی "Heart of Asia" میں شرکت کے لئے تشریف لائی تھیں اور طیّارے سے اُترتے ہی موصوفہ نے کہا تھا کہ’’ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بہت اہم تھیں، اِسی لئے مَیں پاکستان آگئی‘‘۔ معزز قارئین !۔ اُن دِنوں مَیں سوچ رہا تھا کہ ’’اگر اُس کانفرنس کا نام / عنوان "Heart to Heart Conference" ہوتا تو شاید وہ کامیاب ہو جاتی ؟‘‘۔ اُس دورے کے دَوران سُشما سَوراج جی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’’ میرے والدین دھرم پورہ لاہور کے رہنے والے تھے ، جب مَیں اِس سے قبل پاکستان آئی تھی تو مَیں دھرم پورہؔ بھی گئی تھی‘‘ ۔ ہندی زبان میں بہت ہی خوبصورت خاتون کو سُشماؔ کہتے ہیں اور سَوراج کے معنے ہیں ۔ آزادیؔ۔ ہندوئوں کی سیاسی جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپوؔ شری موہن داس کرم چند گاندھیؔ جی نے بھارتی ہندوئوں کو سوراج ( آزادی ) کا نعرہ دے کر یہ یقین دلایا تھا کہ ’’ ہم ہندو دیو مالا کے مطابق وِشنوؔ دیوتا کے اوتار قدیم ایودھیا ؔ کے راجہ بھگوان رامؔ کے نام پر رامؔ راج ( رامؔ کی سلطنت / بادشاہت/ حکومت ) قائم کرنا چاہتے ہیں ؟‘‘ ۔اب کیا کِیا جائے 30 جنوری 1948ء کو نئی دہلی میں گاندھی جی کو ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم ’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ‘‘ ( آر ۔ ایس ۔ ایس ۔ایس) کے ایک ایسے کارکن نے قتل کردِیا تھا ، جِس کا نام تھا۔ ناتھو رامؔ گوڑسے۔ متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے دَور میں ’’ مصور پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے 1905ء میں اپنی نظم رامؔ میں ۔ راجہ رام ؔ جی کی تعریف میں کہا تھا کہ …… لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جام ہند! سب فلسفی ہیں خطّہ ٔ مغرب کے رام ؔہند! …O… ہے رام ؔ کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز! اہل نظر سمجھتے ہیں اُس کو امام ؔہند! پھر کیا ہُوا ؟ ۔ گاندھی ؔجی اپنی اقتداء میں ’’نمازِ سیاست ‘‘ ادا کرنے والے ابو الکلام آزاد ؔکو کئی سال تک ’’انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ کا صدر بنائے منتخب کراتے رہے اور اُن کے پیروکاروں نے آزاد ؔ جی کو ’’ امام اُلہند‘‘ مشہور کردِیا لیکن حضرت قائداعظمؒ آزادؔ جی کو کانگریس کا "Show Boy"کہا کرتے تھے ۔ 2 دسمبر 2013ء کو ’’ امن کی آشا‘‘ کے علمبردار اخبار کے اداتی صفحہ پر ’’ مولانا ابو اُلکلام آزادؔ اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے محسنِ ؔپاکستان ، ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبداُلقدیر خان نے اپنے مضمون میں کانگریسی امام اُلہند ؔکی بہت تعریف و توصیف کی تو 4 دسمبر 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ابو اُلکلامی کو، دِی سلامی!‘‘ ۔’’شاعرِسیاست‘‘ کی نظم کا یہ بند ۔ بارِ دگر پیش خدمت ہے … ہے اُن کا ہر قول قولِ فیصلؔ! نہ کوئی لغزش نہ کوئی خامی! جناب ِ عبداُلقدِیر خاں نے ’’ابو اُلکلامی‘‘ کودی سلامی! قدیم بھارت میں ریاست ایودھیا کے راجا رام ؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھیس بدل کر رات کو ایودھیا میں گھومتے پھرتے مظلوموں کو انصاف اور ظالموں کو سزائیں دلواتے تھے۔ ایران کے بادشاہ نو شیرواں اور خلیفۂ اسلام دوم حضرت عمر بن الخطاب ؓ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کو حقیقی معنوں میں پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا موقع نہیں مل سکا۔ لیکن آپؒ نے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ ٹرمپ راجؔ؟ معزز قارئین!۔ انتخابی نشان "Elephant" ( ہاتھی) والی ری پبلکن پارٹی پہلے بھی کئی بار امریکہ کی مقتدر پارٹی رہی ہے لیکن نومبر 2016ء میں "Donald Trump" صدر امریکہ منتخب ہُوئے تو اُن کی ’’کیا ہی باتاں نیں؟‘‘ (ہندوؔ دیو مالا کے مطابق تباہی و برباد کے دیوتا "Shiva" اور ان کی پتنی (بیوی ) "Parvati" کے اکلوتے بیٹے کا سر ہاتھی کا تھا اور جسم اِنسان کا ۔ جس کا نام ’’گنیش‘‘ (Ganesha)دیوتا ہے۔ صدارتی انتخاب کی انتخابی مہم کے دَوران ، جناب ڈونلڈ ٹرمپ کہا کرتے تھے کہ "I Love India and Indians" تو مَیں نے اپنے کالم میں اُن سے درخواست کی تھی کہ ’’ جناب والا !۔ آپ "I Love Pakistan and Pakistanis" کیوں نہیں کہتے ؟‘‘ ۔ لیکن اُنہیں سُنائی نہیں دِیا۔ معزز قارئین!۔ وزیراعظم عمران خان نے تو خلوصِ دِل سے بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی طرف دوستیؔ کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن سُشما سوراج جی نے تو نیویارک میں ہمارے خُوش شکل اور خُوش اخلاق وزیر خارجہ سے مصافحہ بھی نہیں کِیا؟۔ بے شک سُشما جی ۔ شاہ محمود قریشی صاحب سے ’’السّلام علیکم‘‘ کے بجائے ’’ رام ،رام‘‘ ہی کہہ دیتیں تو اُن کا کیا جاتا ؟ لیکن شاید اِس لئے نہیں کہا کہ ’’ قریشی صاحب ’’بغل میں چُھری اور مُنہ میں رام ، رام ‘‘ کی ضرب اُلمثِل جانتے ہوں گے ؟۔ اب مَیں اپنے قابلِ احترام اور خوبصورت وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب سے مخاطب ہُوں کہ ’’بھارت میں ’’ آر ۔ ایس ۔ ایس ۔ ایس‘‘ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے وزیراعظم آں ؔجہانی اٹل بہاری واجپائی ہوں ۔ اِیں ؔجہانی، نریندر مودی ہوں یا کوئی اور جہانی ؟سب نے مسئلہ کشمیر حل نہ کرنے کی قسم اُٹھا رکھی ہے ؟۔ فروری 1999ء میں بھارتی وزیراعظم شری اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے دورے پر آئے اور اُنہوں نے دوستی کے معاہدے ’’ اعلان لاہور‘‘ پر دستخط بھی کردئیے تھے لیکن اُس سے ایک سال پہلے 1998ء میں واجپائی جی کی نظموں کا مجموعہ شائع ہو چکا تھا، جس کی ایک نظم کا عنوان تھا / ہے ۔ ’’ پڑوسی سے ! ‘‘ ظاہر ہے کہ پڑوسیؔ سے اُن کی مُراد پاکستان تھا ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ … اپنے ہی ہاتھوں تم اپنی قبر نہ کھودو! اپنے پَیروں پر آپ کلہاڑی نہ چلائو! او نادان پڑوسی اپنی آنکھیں کھولو! آزادی انمول نہ اس کا مول لگائو! …O… امریکہ کیا سنسار بھلے ہی ہو ورُدھ! کاشمیر پر بھارت کا دھوج نہیں جھکے گا! ایک نہیں ، دو نہیں ، کرو بیسوں سمجھوتے! پر سو تنتر بھارت کا مستک نہیں جھکے گا معزز قارئین! ۔ہندی لفظوں کے معنے۔ ’’ورُدّھ (مخالف ) ۔ دھوَج( جھنڈا) ۔ سَوتنتر ( آزاد ) ۔ مستک ( ماتھا )‘‘۔ جولائی 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف ’’آگرہ سربراہی کانفرنس ‘‘ میں واجپائی سے مذاکرات کے لئے گئے تو مَیں بھی صدرِ پاکستان کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا۔ واجپائی جی کی ہٹ دھرمی کے باعث مذاکرات طول پکڑنے لگے ۔ جب آگرہ میں اردو روزنامہ ’’ ہند سماچار‘‘ کی کالم نویس سِیما جی ؔنے مجھ سے کہا کہ ’’ اثر چوہان جی!۔ لگتا ہے کہ ’’ برف پگھل رہی ہے؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’جب تک برف "Freezer" سے نکال کر باہر نہ نکالی جائے تو وہ ، کیسے پگھلے گی؟۔ معزز قارئین!۔ آنجہانی واجپائی جی نے اپنی ایک نظم ’’ اونچائی‘‘ میں برفؔ کو موضوع بناتے ہُوئے کہا تھا / ہے … ’’اونچے پہاڑ پر پیڑ نہیں لگتے پودے نہیں اْگتے نہ گھاس ہی اْگتی ہے جمتی ہے صِرف برف جو کفن کی طرح سفید اور موت کی طرح ٹھنڈی ہوتی ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کفن کی طرح سفید اور موت کی طرح جمی ٹھنڈی برف محض چکنی چپڑی باتوں اور مسکراہٹوں سے کیسے پِگھلے گی؟ کسی شاعر نے غنچے کی مسکراہٹ کو سِتم قرار دیتے ہْوئے کہہ دِیا تھا کہ … چھیڑ کرتی ہْوئی جب بادِ صبا آتی ہے! مُسکراہٹ لبِ غنچہ کی سِتم ڈھاتی ہے!