اس کائنات کا کوئی ذرہ بھی، بے کار نہیں ہے۔ گھاس کا تنکا بھی اگر پکار اٹھے کہ ع آخر نہ گیاہ ِباغ ِ اْویم؟ تو کیا غلط ہو! ایک ہی کَل کے، ہم سب پْرزے ہیں۔ لیکن ہیچ اور ہیچ مدان ہونے کے باوجود اپنے اعمال کے ذمہ دار بھی ہم ہیں اور جواب دہ بھی۔مولانا رْوم کہتے ہیں۔ نیم عْمرت در پریشانی رود نیم دیگر در پشیمانی رود یعنی، آدھی عمر پریشانی اور آدھی پشیمانی میں گزرتی ہے۔ اور حقیقت بھی ہے کہ تقریباً ہر آدمی انہی دو منزلوں میں پھنسا رہتا ہے۔ دوام صرف ان اعمال کو ہے، جو نیکی اور خصوصاً خلق ِخدا کی بھلائی کے لیے کیے جائیں۔ لیکن، اس کے برعکس، انسان نے اپنے لیے، ہوائو ہوس کا بازار منتخب کیا ہے! سارے پند و نصائح ایک طرف، اور دنیائے فانی کی لذتیں ایک طرف! لیجیے، وہ ملاقات ہونے والی ہے، چند ماہ پہلے تک، جس کے ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کہاں وہ بے نمکی اور کہاں یہ شورا شوری! گمان بھی نہ گزرے کہ اس میں نیک نیتی یا راستی کا شائبہ بھی ہے۔ یہ حرص و ہوس کی ملاقات ہے حرص و ہوس ہی سے! کل ہی کی بات لگتی ہے کہ اِدھر سے راکٹ مین کا خطاب دیا جا رہا تھا، اْدھر سے سٹھیائے ہوئے بڈھے کی پھبتی کہی جا رہی تھی۔ اِس طرف سے راکٹ مین کا خطاب ارزانی ہوتا ہے اور اْس جانب سے پاگل کا لقب دیا جاتا ہے۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ اب "بڈھا ٹھڈا" اور "راکٹ مین" باہم مل بیٹھیں گے! لڑائی جھگڑا، ہے بھی بری بات۔ اور خاص طور پر جب کہ پچھلی ایک صدی میں، جنگ بازی کے معنی، یکسر بدل کر رہ گئے ہیں۔ اب جنگ کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایندھن یا فوجی بنتے ہیں یا عوام۔ اور عوام کے خادموں کا، الحمد للہ، بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ خدا نخواستہ امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین جنگ ہوئی تو کتنی تباہی مچے گی؟ جنوبی کوریا کے شہر سیئول اور اس کے نواح میں ڈھائی کروڑ لوگ بستے ہیں۔ عام جنگ کے نتیجے میں، اندازا، پہلے روز ہی ایک لاکھ ہلاکتوں کا امکان ہے۔ شمالی کوریا کی طرف سے سب سے چھوٹے نیوکلیئر ہتھیار کا استعمال، کم از کم ایک لاکھ کو ہلاکتوں کا باعث ہو گا۔ مجروحین اور متاثرین کی تعداد، اس سے کئی گنی ہو گی۔ اور اگر بڑے سائز کا بم پھینکا گیا تو ہلاکتیں ساڑھے سات لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گی۔ خود امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے "آگ اور خون" پر مشتمل نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی کرسی نشین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شمالی کوریا پر کم از کم تیس ایٹم بم گرائے جائیں گے۔ تباہی کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے! امریکنوں کی کوشش ہے کہ شمالی کوریا کا نیوکلیئر پروگرام ختم کرا دیا جاے۔ مقصد برآری کے لیے، عائد پابندیاں ختم کرنے اور مراعات دینے سمیت، بہت سی سہولتوں کا وعدہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پہلے، شمالی کوریا کو ڈھرے پر لایا تو جائے۔ دوسری طرف، کِم جانگ اْون کے پیش ِنظر، اگر اپنے عوام کی فلاح ہوتی، تو بہت پہلے عیش و عشرت کو ترک کر چکے ہوتے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کو، شمالی کوریا کے عوام سے تو کیا، امریکی مفادات سے بھی جتنی دلچسپی ہے، وہ جی سیون سمٹ میں دیکھ لیا گیا۔ ان سطور کے چھپنے تک، ٹرمپ اور کِم جانگ اْون کی ملاقات، ہو چکی ہو گی۔ اِس وقت کون کِہ سکتا ہے کہ اس موقع پر، ان کا رویہ کیا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ یہ منہ تھتھائے بیٹھے رہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دوسرے کی، بانہوں میں بانہیں ڈال دی جائیں۔ ہو گی یہ بہرحال تاریخی ملاقات! ٭٭٭٭٭ کِتاب یا عِتاب؟ شاعروں کا کمال، عموما صرف ایک صنف میں کھلتا ہے۔ یا یوں کِہ لیجیے کہ اکثر، صرف ایک صنف کے جامع ہوتے ہیں۔ مثلا میر کی پہچان، ان کی غزل گوئی ہے۔ اقبال اپنی نظموں سے مقبول و معروف ہوئے۔ اسی طرح مرثیہ اور سلام کے سوا، انیس کا کوئی اور بیت، کم ہی کسی کو یاد ہو گا۔ بڑے، لیکن یک صنفے شاعروں کے درمیان، استثنائی مثال، اکبر الٰہ آبادی کی ہے۔ دوسروں کے برعکس، وہ غزل یا نظم کے نہیں، صرف "شعر" کے شاعر تھے۔ یہ شعر، غزلوں اور نظموں، قطعوں اور رْباعیوں میں بھی ملتے ہیں اور تاریخی واقعات میں بھی! بلکہ اِن کے شعروں نے، کہیں کہیں، تاریخ مرتب کر دی ہے! ایک دفعہ، اکبر کے قلم سے، پردے کی حمایت میں، کوئی مضمون نکلا۔ اس پر، دلی کے کسی آزاد خیال بزرگ، غالبا راشد الخیری نے، نقد اور جرح کا پٹارا کھول دیا۔ بات اتنی بڑھی کہ ان بزرگ نے، کچھ فرضی نام زنانہ، غالبا، بلقیس آرا وغیرہ اختیار کر کے، بڑی سخت تحریریں لکھیں۔ یہ بھی عجیب تماشا تھا کہ خواتین کے حقوق کی جنگ، خواتین کی آڑ لے کر لڑی جانے لگی۔ بات جب کوسنوں اور صلواتوں تک پہنچ گئی، تو اکبر نے جوابا یہ شعر لکھ بھیجا۔ حمایت میں نے پردے کی تو کی تھی، خوش مزاجی سے مجھے دلوا رہے ہیں گالیاں، کیوں اپنی باجی سے یہ واقعہ، اس کتاب کے مبینہ مندرجات پڑھ کر یاد آیا، جس نے بحث کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی نے نون لیگ پر، کچھ اسی قسم کا الزام لگایا ہے۔ کتاب لکھنے کا بڑا اور اکثر واحد مقصد، اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہوتی ہے تاکہ بِکری بھی زیادہ ہو۔ یہ مقصد، کتاب چھپنے سے پہلے ہی پورا ہو گیا! چند ہفتے پہلے، جنرل اسد درانی اور ایس اے دْلت کی کتاب بھی، بڑی حد تک، اسی زمرے میں آتی ہے۔ وہ بھی خوب بک رہی ہے۔ دوسرا مقصد عمران خان سے بدلہ لینا ہو سکتا ہے۔ اور لگ رہا ہے کہ یہ بھی پورا ہوا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی، اس کے حامیوں اور کتاب کے زخم خوردوں کا، انگاروں پر لوٹنا، فطری بھی ہے اور تقریبا یقینی بھی۔ "مینڈھا سائیں" جیسی مرد افگن کتاب کو ڈکار لیے بغیر ڈکار جانا، مصطفی کھر ہی کا جگرا تھا! رہے عوام، تو ان کے لیے ایسے مواد میں بڑی کشش ہے۔ یہ صرف پاکستانی عوام تک محدود نہیں, بلکہ سنسنی اور اسکینڈل سے، ہر قوم حظ اٹھاتی ہے۔ البتہ ہماری قوم دوسروں سے کچھ آگے ہی ہے۔ اور اس کتاب میں تو ع سب کچھ کھْل رہا ہے نتیجتاً ع یاں یوں بھی واہ وا ہے، اور وْوں بھی واہ وا ہے! ٭٭٭٭٭ شاعرانہ نازک خیالیاں اردو شاعروں اور خصوصاً، لکھنویوں کی نازک خیالی، بڑی بدنام ہوئی ہے۔ کبھی اس پر داد دی جاتی تھی، مگر اب یہ صرف مذاق اْڑانے کے لائق سمجھی جاتی ہے۔ کسی لکھنوی شاعر نے کہا تھا دو دوپٹا تم اپنا ململ کا ناتواں ہوں، کفن بھی ہو ہلکا جب یہ شعر، اْستاد ناسخ لکھنوی تک پہنچا تو اس نہلے پر یوں دہلا مارا ڈال دو سایہ اپنے آنچل کا ناتواں ہوں، کفن بھی ہو ہلکا اس سے زیادہ نزاکت، کسی اور لکھنوی کے بھی بس کی بات نہیں تھی! چنانچہ ناسخ ہی کا شعر، بالا رہا۔ اخلاق احمد دہلوی نے لکھا ہے کہ میرٹھ کے کسی شاعر نے، مرزا غالب کی خدمت میں یہ مصرع بھیج کر، گویا داد طلبی کی۔ ع رگ ِگْل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں اس پر غالب نے گرہ لگا کر، شعر یوں مکمل کیا۔ سنا ہے کہ میرٹھ میں الو کے پٹھے رگ ِگل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں ہرچند کہ اس روایت میں زیادہ وزن نہیں لگتا، لیکن جس نے بھی کہا، درست ہی کہا۔