کابل کی سڑکوں پر اگر کوئی عید کے دنوں میں موجود ہوتا تو اس کی آنکھوں کے سامنے جو منظر تھا وہ ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز تھا۔1995ء میں اپنے ظہور کے بعد سے لے کر اب تک جن کو دنیا بھر کے میڈیا نے ایک خوفناک عفریت بنا کر پیش کیا تھا جن کے بارے میں علاقائی اور عالمی سطح پر جھوٹی کہانیاں تراشی گئیں آج وہی طالبان کابل کی سڑکوں پر ایسے گھوم رہے تھے جیسے لوگ انہیں صدیوں سے دوبارہ دیکھنے کو ترس رہے ہوں۔ دنیا تو انہیں دقیانوسی اور کیمرے کے دشمن کے طور پر پیش کرتی رہی لیکن لوگ ان کے ساتھ سلفیاں بنا رہے تھے اور وہ خوشی سے بے تاب ان لوگوں کو انکار تک نہیں کرتے تھے۔ یہ منظر بھی دیدنی تھا ایک چوک میں ایک مسحور کن دھن پر طالبان اور افغان فوجی مل کر مشہور پشتو رقص ’’اتنٹر‘‘کر رہے ہیں۔ طالبان کا ایک گروہ اپنی مخصوص پگڑیاں پہنے موٹر سائیکلوں پر گھوم رہا تھا کہ ایک جگہ پر بی بی سی کی نمائندہ ملائکہ احمد زئی نے انہیں روکا اور سوال کیا کہ آپ کابل میں اپنے ساتھ کیا پیغام لے کر آئے ہیں اس کے جواب میں طالبان کمانڈر نے کہا ہم صرف اور صرف اللہ کے لیے لڑ رہے ہیں کسی اور کے لیے نہیں۔ ہمیں کوئی فنڈنگ نہیں کر رہا ہم پاکستان کے لیے نہیں لڑ رہے، جب تک یہاں امریکہ ہے ہم لڑتے رہیں گے اور جب تک افغانستان میں غیر ملکی فوجیں موجود ہیں امن اور صلح کا امکان نہیں۔ چونکہ جنگ بندی تھی اسی لیے اگلا سوال یہ کیا گیا کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد کیا آپ افغان سپاہیوں پر گولیاں چلائیں گے تو جواب دیا جو افغان فوجی غیر ملکی افواج کے ساتھ مل کر لڑیں گے وہ طالبان کے حملوں سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس کے بعد اپیل کی کہ افغان افواج بھی امریکہ کے خلاف ہماری صفوں میں شامل ہو جائے۔ یہ بالکل ویسا ہی منظر تھا جب آج سے تقریبا23سال قبل ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبان قندھار شہر میں داخل ہوئے تھے ایک ہجوم اس مرد حر کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑا تھا۔ جتنے افغان فوجی قندھار کی چھائونی میں موجود تھے سب کے سب ایک ایسے گروہ میں شامل ہو گئے تھے جسے کوئی دور دور تو تک جانتا تک نہ تھا وہ کسی عالم ‘ فقیہہ‘ مجتہد‘ پروفیسر کی قیادت کا اعلان نہیں کرتے تھے، خود کو طالبان کہتے تھے جو پشتون معاشرے میں ایک مقبول نام ہے ’’طالب‘‘ پشتونوں کے ہاں اس نوجوان کو کہتے ہیں جو دین کا علم حاصل کر رہا ہو یہ معاشرے میں انتہائی قابل احترام ہوتا ہے۔ پشتونوں کے ہاں شادی بیاہ کے گیت جنہیں ’’ٹپے‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں انتہائی محبت سے طالب کا ذکر آتا ہے مثلاً ’’تو رہ طالبا، زے ناجوڑیم‘‘ اے سیاہ رنگ طالب دیکھ میں بیمار ہوں‘ اسی طالب کی جمع طالبان ہے۔ قندھار کے اس واقعے کے جب وہاں اس علاقے میں ان کی حکومت قائم ہوئی تو کئی سال کی خانہ جنگی میں امن کو ترستے ہوئے افغانستان میں یہ خطہ امن کی علامت بن گیا پھر اس کی خوشبو پھیلنے لگی نوے فیصد افغانستان بغیر کسی لڑائی کے طالبان کے زیر تسلط آ گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آپس میں دست و گریباں مجاہدین کے جبہّ گمندان اگر کسی پرظلم کرتے تو وہ ایک فقرہ بولتا جس میں امید بھی تھی اور ظلم کرنے والے کے لیے دھمکی بھی۔ وہ کہتا ’’طالبان را روان دی‘‘ طالبان آ رہے ہیں۔ یہ فقرہ اسی امید کے ساتھ میں نے خود لوگوں کو پاکستان کے سرحدی شہروں میں بھی بولتے سنا ہے۔ بلکہ کوئٹہ جیسے جدید صوبائی ہیڈ کوارٹر سے لوگ اپنے مقدمے لے کر چمن کی سرحد عبور کر کے طالبان سے فیصلہ کرواتے اور وہ فیصلہ کوئٹہ میں نافذ بھی ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تھانے کورٹ کچہری یا پٹوار خانے میں جہاں کہیں کسی کا ظلم ناانصافی اور رشوت خوانی پر بس نہ چلتا تو وہ ایک فقرہ آہستہ یا بلند آواز سے کہتا تھا طالبان را روان دی۔ اٹھارہ سال کے بعد صرف کابل نہیں بلکہ افغانستان کے تقریبا ہر بڑے شہر میں طالبان کا استقبال کیا بتاتا ہے؟ صرف دو باتیں ‘ ایک یہ کہ اگر ان کا پانچ سالہ دور امن و خوشحالی کا دور نہ ہوتا تو کوئی ان کو آج اپنے شہروں میں خوش آمدید نہ کہتا۔ اس دور کی خوشبو تھی جو آج لوگوں کو یاد تھی کابل تو انہوں نے لڑ کر فتح کیا تھا جب وہ کابل میں داخل ہوئے تھے تو یہ ایک کھنڈر بن چکا تھا، اس کابل میں وہ نسل آج بھی موجود ہے جس نے طالبان کا پرامن دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کابل ہمیشہ سے ایک جدید شہر رہا ہے زیادہ تر فارسی بولنے والی اشرافیہ کا شہر ہے، امریکیوں نے وہاں آتے ہی اس شہر کو اپنے کلچر میں رنگنے کی کوشش کی اور وہاں بھی ایک سول سوسائٹی وجود میں لائی گئی۔ لیکن آج تصویریں جو اس وقت سوشل میڈیا پر عام ہیں جن میں سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین طالبان کے ساتھ تصویریں بنا رہی ہیں انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے پگڑیاں پہنا رہی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ اٹھارہ سال سے طالبان ہی وہ واحد گروہ ہے جو غیر ملکی تسلط کے خلاف لڑ رہا ہے وہ غیر ملکی تسلط جس نے افغان عوام کو سوائے لاشوں کے کچھ نہیں دیا۔ کون سا ایسا شہر ہے جہاں قبضہ گری کے اس جنون میں افغان کا خون نہیں بہایا گیا۔ ان اٹھارہ سالوں میں افغان عوام کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے پیچھے کیا مقاصد تھے، اسی لیے وہ امن چاہتے ہیں اور ان کی یادداشتوں میں صرف ایک ہی دور آج تک زندہ ہے جس میں افغانستان میں امن تھا اور وہ طالبان کا دور تھا۔ اس دور کو عالمی میڈیا "silence of the grave yard" ’’قبرستان کی خاموشی‘‘ کہتا تھا، لیکن افغان عوام حقیقت سے آشنا ہیں۔ اسی لیے اب وہ اس عالمی برادری کے دو غلے چہرے سے نقاب اتار پھینکنا چاہتے ہیں جو ہر ملک میں غیر ملکی تسلط کے خلاف لڑنے والے کو حریت پسند کہتا ہے لیکن افغانستان میں لڑنے والوں کو دہشت گرد کہہ کر بدنام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے غزنی، پکتیا شاہراہ پر طالبان کا قبضہ ہے اور عوام نے اسے تسلیم کر رکھا ہے۔ اس قدر مسلسل قبضہ اٹھارہ سال میں کبھی ممکن نہ تھا اور یہ عوام کی تائید کے بغیر مشکل تھا۔ اٹھارہ سال کی لڑائی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا اس لیے کہ ان کے پاس مقصد صرف ایک ہے کہ وہ اللہ کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ تئیس سال پہلے بھی اسی مقصد نے انہیں فتح سے ہمکنار کیا تھا اور آج بھی اسی توکل نے ان کے سروں پر سول سوسائٹی کی خواتین کے ہاتھوں سے پگڑیاں پہنوائی ہیں، جن کا نام لے کر طالبان کو بدنام کیا جاتا تھا کہ یہ خواتین دشمن ہیں۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور فتح وہ جسے عوام قبول کریں۔ ایسی فتح جو عالمی طاقتوں کے مقابلے میں ہو۔ اقبال یاد آتے ہیں ؎ اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا