حالیہ شدیدبرف باری کے ساتھ ہی کشمیرکے جنوبی ضلع پلوامہ جو فی الوقت مجاہدین کشمیرکامرکز سمجھاجارہاہے ،میںرات کی اندھیری چھاجانے کے بعد خوفناک آوازیں سنائی دے رہی ہیںکشمیرمیں افواہ پھیلائی گئی ہے کہ یہ دل دہلانے والی صدائیں اوریہ چیخیں چڑیل جسے کشمیری زبان میں’’ رانٹس‘‘ کہاجاتاہے، کی ہیں۔ اس صورتحال سے چھوٹے بچوں میں خوف وہراس پایاجارہاہے ۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی چڑیل یارانٹس وغیرہ نہیں یہ قابض بھارتی فوجی اہلکار ہیں جواسلامیان کشمیرکوخوفزدہ کرنے کے لئے مختلف روپ دھاررہے ہیں۔واضح رہے کہ اس دورجدید میںرام کہانیاںاوردیولالائی قصے چلنے والے نہیںآج ہرچیز سامنے ہے اورایکسپوز ہوچکی ہے ۔رانٹس کوئی بلاہوتی تودنیاکے کسی بھی zoo))میں موجود ہوتی لیکن نہیں ہے ۔اس لئے یہ خوفناک شبانہ چیخیں کسی چڑیل یارانٹس کی چیخ وپکارہرگز نہیں بلکہ بھارتی قابض فوج اسلامیان کشمیرکو مجاہدین کوپناہ دینے کے حوالے سے ہراساں کررہی اور ڈرارہی ہے تاکہ وہ سہم جائیں اوراپنے دروازے بندکرکے گھروں میں دبک کررہ جائیں اوررانٹس آجانے کے خوف سے مجاہدین کے لئے کوئی بھی اپنادروازہ کھول نہ سکے اوروہ العطش العطش کرتے ہوئے شہیدہوجائیں ۔لیکن یہ پہلاموقع نہیں بلکہ 1970میں کشمیرکے کئی علاقوں میں شبانہ آتشزنی کی گئی جس میں لوگوں کے مکانات،گائو خانے اورصحنوں میںجمع فصلوں کورات کی اندھیری چھاجانے پرآگ لگاکربھسم کیاجاتاتھا ۔اس کے بعد 1983میں ایک اورمہیب سلسلہ شروع جس کے دوران کئی علاقوں میں کمسن بچوں کے اغوا کی وارداتیں ہوئیںجبکہ1993کے بھوت نام کی ایک مخلوق نمودارہوئی جس نے کشمیرمیں اودھم مچادیا،ماضی قریب کی بات کریںتو2017 خواتین کے بال کاٹنے والے شرمناک واقعات پیش آئے لیکن ہرموقع پربھارت کی یہ تمام سازشیں ناکام اوربھارتی فوج نامرادہوئیکیونکہ بہت جلدپتا چل جاتا تھا کہ ان اوچھے ہتھکنڈوںکا ارتکاب کرنے والے بھارتی فوجی اہلکار تھے جوکئی جگہوں سے رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے۔جس سے پیش آمدہ ان دلخراش واقعات کے پس پردہ بھارتی فوج کے مظالم کی ایک نئی داستان الم نشرح ہوئی کہ یہ سارا مہیب اورشرمناک سلسلہ اسلامیان جموںوکشمیر کو اپنی منصفانہ اورحق پرمبنی آزادی کی جدوجہد سے دلبرداشتہ اوراس سے دستبردار کرانے کی ایک منظم ناپاک کوشش تھی۔ ،ملت اسلامیہ جموںو کشمیر عرصہ درازسے اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے ضمن میںہر سطح کی قربانیاںپیش کرتے جارہے ہیں ، لیکن بھارت انہیں اپنے چٹان موقف سے ہٹانے کے لئے تمام صدمہ خیز حربے اور ہتھکنڈے استعمال کررہاہے۔ 1993میںقابض بھارتی فوج کی طرف سے’’ بھوت آپریشن‘‘ کے نام سے اسلامیان جموںوکشمیرکوہراسان کرنے کی ایک خوفناک مہم چلائی گئی ۔ہوایوں کہ ایک نادیدہ مخلوق نے بھوت بن کرمقبوضہ کشمیرکے طول وعرض میں دہشت مچائی تھی۔ یہ مخلوق نقاب اور سیاہ لباس میں ملبوس رات کے اندھیرے میں بستیوں میں نمودار ہوکر ڈرانے کا کام کرتی تھی۔ ان واقعات میں بھوت کی دہشت اور ان کو پکڑنے کی کوشش میں کئی افراد کی جانیں بھی چلی گئیں۔ کشمیرکی تاریخ کے خونیں اوراق میں یہ بھی تحریر ہے کہ بھوت آپریشن کے دوران سرینگر کے مہجور نگر میں رات کے اندھیرے میں مقامی نوجوانوں نے بستی میں نمودار ہوئے ان بھوتوں کا تعاقب کیا تو ان میں سے ایک نے مقامی اسکول میں پناہ لی۔ ہجوم نے اسکول کو گھیرے میں لیا۔ چند نوجوانوں نے جراٰت کا مظاہرہ کرکے جونہی اسکول میں گھسنے کی کوشش کی،توہوائی فائرنگ ہوئی۔جس پران نوجوانوں نے آگے بڑھنے سے قدم روک لیے ۔اگلے دن فوج نے پورے علاقہ کا فوجی محاصرہ ہوا،اور46افراد کو حراست میں لیاگیا،جن میں بیشتر وہ نوجوان تھے، جنہوں نے بھوت کو پکڑنے کو کوشش کی تھی یا لوگوں کو تعاقب کرنے کی ترغیب دی تھی، حراست میں ہی تھے لیکن بہت جلد قابض بھارتی فوج کے اس آپریشن کابھانڈاپیچ چوراہے اس وقت پھوٹ گیاکہ جب گاندر بل میں عبد العزیز نامی شہری کے ساتھ پیش آئے واقعے نے بالآخر بھوت کا راز فاش کیا اور اسی کے ساتھ بھارتی فوج کی طرف سے اسلامیان کشمیر کو ہراسان کرانے کایہ مذموم اورشرمناک آپریشن اپنے انجام کو پہنچا۔ رات کے اندھیرے میں کھیتوں میں پانی دینے کے بعد عبد العزیز گھر لوٹ رہا تھا، کہ نقاب اور سیاہ لباس میں ملبوس بھوت نے اسپر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ بھاگنے کی را ہیں مسدود دیکھ کر عبد العزیز نے اپنے دفاع میں بیلچہ سے بھوت کے سر پر وار کرکے اسکو زمین پر گرادیا۔ عبدالعزیزنے جراٰت مندی سے کام لیکر زمین پرگرے ہوئے بھوت کا نقاب اتارا تو معلوم ہو ا کہ بھوت کوئی اور نہیں بلکہ یہ قابض بھارتی فوج (BSF) کا اہلکار کلدیپ سنگھ سروس نمبر88688127 ہے۔ اسکو فورا پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ۔قد دراز کرنے اور مکانوں سے چھلانگیں لگانے کیلئے اس اہلکار نے خاصے اونچے مخصوص اسپرنگ لگے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ گاندر بل کے تھانہ میں اسکی ایف آئی آر ابھی بھی درج ہے۔ اگلے دن علاقے میںقائم بی ایس ایف کیمپ کا افسر اپنے ایک جھتے کے ساتھ تھانے پہنچا، پولیس اسٹیشن گاندربل سے اپنے ساتھی اہلکار کو چھڑوایا بعد میں عبد العزیز کے گھر پر دھاوا بو ل کر افراد خانہ کو حراست میں لیا۔ چند روز بعد عبد العزیز کو رہا کر دیا گیا،مگر اسکا بیٹا کئی ماہ تک بی ایس ایف کی حراست میں رہا۔ 1970کی آگ زنی ہو یا 1983میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں یا 1993کے بھوت یا اب خواتین کے بال کاٹنے والے واقعات ،یاپھرآج چڑیل ’’رانٹس آپریشن‘‘ہو یہ بات طے ہے کہ یہ تمام کے تمام بھارتی حربے ہیں اوراس کے اوچھے ہتھکنڈے بالآخراس کے گلے پڑ جائیں گے ۔ہرموقع پریہ بات مترشح ہوتی رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر پوری طرح قابض بھارتی فوج کے نرغے میں ہے۔قاتل فوج کی موجودگی میں یہاںغموں ،الموں، المیوں اورستموں کی ایک طویل داستان ہے۔ رانٹس یاچڑیل کاتازہ واقعہ بھی اسی شرمناک سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے ۔ مگر یہ ایجنسیا ں بھول جاتی ہیں کہ کشمیرکی نئی پود جس نے نوے سے آنکھ کھولی ہے اور نامساعد حالات کے بھنورمیں پلی بڑھی ہے، حالات کے جبر سے سمجھوتہ کر کے خاموش رہنا ان کا وطیرہ نہیں ۔ اور نہ ہی یہ اپنے گرد وپیش ظلم و جبر کی مہیب داستانوں کو تماشائی کی نظر سے دیکھ کر آگے بڑھنے کے روادار ہیں بلکہ یہ بے انصافی کرنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حساب مانگنے کا فن جانتے ہیں۔ اس سے پیشتر یہ خط مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائے ، ضرورت اس بات کی ہے، کہ مسئلہ کے دائمی حل کیلئے سیاسی پیش رفت کے دروازے کھولے جائیں۔ عوام کو خوف و دہشت میں مبتلا رکھنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔