سچ پوچھئے تو مجھے اس دھرنے سے بھی اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ شاید اس کی وجہ اس میں طاہرالقادری کی غیر سنجیدہ شمولیت تھی یا اس کا اچانک ابھر آنا تھا۔ کچھ بھی ہو اس لئے اگر میں یہ کہوں کہ مجھے اس دھرنے سے بھی ایسی دلچسپی نہیں ہے تو یہ غیر معقول بات نہ ہو گی۔ پر کیا کروں یہ اب سر پر آن پہنچا ہے۔ اس وقت لاہور میں اپنے وجود کے پورے احساس کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کی اٹھان 2014ء والے دھرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ آگے خدا جانے کیا ہوتا ہے۔ البتہ تشویش مجھے ضرور ہے جو اس وقت بھی تھی۔ جو لوگ اندر کی کہانی جانتے تھے وہ تو بہت فکر مند تھے یہ درست ہے کہ دھرنے کسی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوا کرتے۔ اس وقت یہ کوئی پوشیدہ راز نہ رہا تھا کہ پشت پناہ کون ہے۔ عمران نے ایمپائر کی انگلی کا اشارہ دے کر تو سارا بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔ پھر اس بات پر حیرانی ہوتی تھی کہ کوئی ادارہ بھی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ جانے انہیں کیا خوف تھا۔ وگرنہ کوئی ایسے تشویشناک حالات بھی نہ تھے۔ ایک ماڈل ٹائون کے واقعہ تھا یہ راز بھی اب تک فاش نہیں ہوا کہ یہ سانحہ ہوا کیسے؟ سچ کہتا ہوں ابھی تک خبر نہیں ہے۔ دھرنے والے بڑے سکون سے تھے۔ سارا دن گھوم پھر کر آتے رات کسی ہوٹل یا اپنے گھر گزارتے۔ ہو سکے تو اپنے اپنے شہروں میں جا کر بال بچوں کی دیکھ بھال کر کے واپس آ جاتے اور شام کو محفل جما لیتے اگر ریاست چاہتی تو اس میدان کو کسی دن بھی صاف کرا سکتی تھی۔ یہ کوئی خادم حسین رضوی کے دھرنے والی کیفیت نہ تھی کہ گولی چل جاتی۔ مجمع ڈٹ جاتا پھر بھی یہ ایک لمبے عرصے جاری رہا۔ مجھے اس مارچ یا دھرنے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں سیاسی طور پر تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جنہیں ایک بڑی اکثریت نے ووٹ دیے ہیں اس کے ساتھ اس طرح نہیں ہیں جس طرح ایک سیاسی تحریک میں پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان نے ایک نہیں کئی سیاسی ریلیاں دیکھی ہیں۔ جب پہلا مارشل لاء لگا تو اس زمانے میں خان عبدالقیوم خاں ایک بہت بڑا جلوس لے کر منزلوں پہ منزلیں مارتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ٹھیک طرح یاد نہیں‘ اسے لاہور پہنچنا تھا ابھی گوجرانوالہ پہنچا تھا کہ مارشل لاء لگ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب 77ء کی تحریک میں اصغر خاں جلوس لے کر نکلے تو کسی نے خان عبدالقیوم خاں کے اس جلوس کو یاد کیا۔ اصغر خاں کے ریلے کو میں نے پنجاب میں تو نہیں دیکھا تھا کراچی میں البتہ دیکھا تھا۔ ایئر پورٹ سے برنس روڈ تک کوئی گیارہ گھنٹوں میں پہنچا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ اس ملک کی تاریخ میں پھر نہیں آئے۔ جسٹس افتخار چودھری کے مارچ کو ہم یاد کرتے ہیں مگر وہ ایک الگ ہی کہانی تھی۔ میں دور نکل گیا عرض یہ کرتا تھا کہ احتجاجوں‘ جلسوں ‘ جلوسوں ‘ ریلیوں مارچوں کا ہم نے ایک انداز دیکھا ہے۔ بے نظیر نے بھی ٹرین مارچ کیا اور نواز شریف نے بھی حکومت گرانے کی کوشش کی ‘یہ سب بہت ابتدا میں ہوتا رہا ہے۔ اس وقت بھی لگتا ہے سب یکسو نہیں ہیں کہ یہ مناسب وقت ہے یا نہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی طاقت منوا لی ہے اور کامیابی کیا ہوتی ہے کہ حکومت قوانین بدلنے بیٹھ جائے گرفتاریاں کرنے لگے۔ حد ہو گئی ہے ایک سابق سینیٹر اور وزیر کی شہریت منسوخ کر دی گئی۔ میڈیا پر بے تکی پابندیاں لگا دی گئیں۔ عجیب ہے جس کواپنے پروگراموں میں بلائو‘ وہ معقول آدمی ہونا چاہیے بھئی۔ کیا معیار ہو گا اس کا یہی نا کہ ہمارے خلاف نہ بولے ایک اینکر دوسرے چینل پر نہ بولے۔ یہاں میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں تو ایک زمانے میں یہ حکم بھی آیا تھا کہ فوج کا جو ریٹائرڈ افسر سکرین پر آئے وہ دی ہوئی فہرست کے مطابق ہو۔ جے یو آئی کی رضا کار تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ اور تو اور یہ تک حکم جاری ہوا کہ اسلام آباد میں ڈرون کیمرے استعمال نہیں ہوں گے گویا اس لئے کہ اجتماع کا اصل پھیلائو نظر آ جائے گا۔ دارالحکومت میں مسلح افراد کی ان گنت نفری بلوا لی گئی۔ کنٹینر سجا دیے گئے ۔ خندقیں کھود دی گئیں اور کامیابی کیا ہوتی ہے۔ اس کے بعدکچھ بھی نہ ہو تو مولانا کامیاب ہو چکے۔ آئندہ انتخابات میں انہیں کھیل سے باہر رکھنے والا سو بار سوچے گا اور اگر یہ سچ ہے کہ انہیں بھی کسی کی پشت پناہی حاصل ہے تو پھر یہ بہت ہی تشویشناک بات ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر یقینا یہ سوچنے کی بات ہے کہ مولانا کے پیچھے اتنی طاقت کہاں سے آئی؟۔ مولانا کو صرف ایک فکر کا نمائندہ نہ سمجھیں اس خطے کی صورت حال میں اس کے کئی پہلو ہیں۔ اگر یہ اصل معرکہ کی ریہرسل بھی ہے تو اندازہ لگائیے جب سب پارٹیاں دل و جان سے میدان میں اترنے کا ٹھان لیں گی تو کیا ہو گا۔ باخبر ذرائع یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اگر انہیں اسلام آباد پہنچنے سے روکا گیا تو پھر ایک فساد برپا ہو گا اور اگر انہوں نے اسلام آباد میں سامعین کے کامیاب اجتماع میں فیصلہ کر لیا کہ یہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔ تب کیا ہو گا۔ ملک میں کوئی چیز قابو میں نہیں ہے معیشت نہ سیاست۔ آئی ایم ایف ڈنڈا لے کر بیٹھا ہوا ہے۔ تاجر کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں اب تو پارٹی کے قریبی ساتھی اور ہمدرد تک چیخ پڑے ہیں حکومتیں صرف طاقت کے زور پر نہیں چلا کرتیں۔ طاقت بھی حالات کاموڈ دیکھ کر رخ بدل لیا کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کا بار بار کہنا کہ فوج مرے ساتھ ہے ایک خوشگوار بات نہیں۔ یہ اندرونی خوف کا اظہار ہے۔ یہ گویا ایک ذاتی زبان میں دھمکی ہے کہ تم مرا کیا کر لو گے فوج مرے ساتھ ہے۔ یہ فوج کو بھی مشکل حالات میں ڈالنے کی بات ہے۔ ایک طرف کہتے ہو کہ یہ مارچ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی خاطر ہے۔ دوسری بات فرماتے ہو کہ جس کسی نے جہاد کی بات کی۔ اس نے پاکستان سے دشمنی کی۔ یہ انڈیا کی زبان بولنا ہے۔ اس طرح انڈیا ہم پر حملہ کر دے گا۔ خدا کا خوف کرو کوئی حکمران اس طرح اپنے اندرونی ڈر کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم کچھ نہیںکریں گے کیونکہ ہم تم سے جنگ لڑنے سے ڈرتے ہیں کہاں تک عقل مندی کا پیغام ہے۔ بار بار یہ کہنا کہ بھارت تو حملے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے یہ کہنے کے مترادف ہے وہ تو آمادہ پیکار ہے۔ ہم اس سے فرار چاہتے ہیں۔ یہ سلامتی کی زبان ہے نہ سفارت کاری کی ہم کس کی زبان بول رہے ہیں۔ کبھی تاجروں کی ایسی منہ توڑ ہڑتال دیکھی ہے۔ پورا ملک بند پڑا ہے اس میں پارٹی کی تخصیص نہیں ہے۔ ہر کوئی تپا بیٹھا ہے آپ لاکھ کہیں 30لاکھ سے زیادہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے۔ ہم ان سے لے کررہیں گے۔ اس طرح نہیں چلا کرتیں۔ یہ بات ہمیں ہمارے بزرگوں نے بتائی تھیں۔ ہمارے قرون اولیٰ کے حکمران حضرت عمر فاروقؓ سے لے کر عمربن عزیزؓ تک جب ہمارا نظام حکومت ترتیب پا رہے تھے۔ صاف لفظوں میں اپنے عمال کو اس بارے میں جو ہدایات دیا کرتے تھے ان کا خلاصہ یہ تھا کہ جبری ٹیکس سے نظام حکومت چلا نہیں کرتا۔ یہی کامیابی اسلامی نظام کی نشانی تھی۔ ہم ہر محاذ پر پھنسے ہوئے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر روز خلاف ورزی ہو رہی ہے اب تو افغان سرحد بھی گرم ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ کام نہیں کر رہی کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی۔ آرڈی ننسوں سے چلنے والی حکومت یا اس بات پر ناز کر نے والے حکمران کہ فوج مرے ساتھ ہے کوئی کامیابی نہیں دکھا سکتی۔ آپ نے کس کے ساتھ ایک پیج پر ہونا ہے۔ آپ کی تو اپنی پارٹی کے وزراء ایک پیج پر نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کے اندر کسی انتشار یا خلفشار کی صورت حال کسی طرح بھی خوشگوار نہیں ہے۔ جب یہ سطریں آپ کے سامنے ہوں گی اسلام آباد میں معرکہ کا دن ہو گا۔ خدا اس ملک کو اپنی ایمان میں رکھے اب بھی معاملات سنبھل سکتے ہیں۔ وگرنہ فائدہ کسی پارٹی کو ہو نہ ہو‘ ان قوتوں کو ضرور ہو گا جو ملک کے اندر بے چینی دیکھنا چاہتی ہیں اسمبلیاں ویران پڑی ہیں۔ منڈیاں سنسان ہیں۔ گلی محلوں میں بے رونقی ہے اعداد و شمار سے ثابت کرنے کی کوشش نہ کیجیے کہ آپ کے زمانے میں دوسری حکومتوں کے پہلے سال کے مقابلے میں مہنگائی ہوئی ہے۔ یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کوئی اس پر اعتبار نہیں کرے گا۔ اسے ایک بھونڈا مذاق ہی سمجھا جائے گا۔ آپ لاکھ کہیں حالات بہتر آنے والے ہیں۔ عوام کے لئے کم از کم آئندہ ڈیڑھ دو سال صرف مشکلات ہی لائیں گے۔2.4فیصد ترقی سے اور کیا ملے گا۔ اس لئے آگے آپ کو کوئی چلنے نہیں دے گا۔ سارے راستے بند پڑے ہیں۔ کوئی طریقہ ڈھونڈنا ہو گا۔ بندگلی میں پھنس کر رہ جانا بالکل قابل قبول نہیں ہوا کرتا ۔ کیا ضروری ہے کہ راستہ آپ کو عوام کا ریلا دکھائے۔ خود ہی کوئی تدبیر کر لیجیے گا یا راستہ دے دو یا راستہ بنا دو۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔