اب یہ بتانے کا تو کچھ فائدہ نہیں کہ یونیورسٹی زمانے میں ہم دوستوں کا مشترکہ دشمن رٹّا افزوں امتحانی نظام تھا، کوئی ظالم حسینہ تھی یا جدید جوڑوں پر شدید نظر رکھنے والے جماعتی بھائی، لیکن ہمیں یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں ہم لتا منگیشکر کے فلم ’آس پاس‘ کے معروف گیت کو متعدد مقاصد کے حصول کی خاطر کورس کی شکل میں یوں گایا کرتے تھے: ہم کو بھی اُس نے مارا ، تم کو بھی اُس نے مارا ہم سب کو اُس نے مارا ، اِس اُس کو مار ڈالو آج ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پوری اُمتِ مسلمہ کا’’ اُس ‘‘ وہی بد بخت ہے جو آئے دن مسلمانوں کی چھاتی پہ مونگ، مسور، موٹھ اور جانے کیا کچھ دَل کے ہماری غیرت کا درجۂ حرارت چیک کرتا رہتا ہے۔ بانیِ پاکستان نے سچ کہا تھا کہ اسرائیل اُمتِ مسلمہ کے دل میں گھونپا گیا وہ خنجر ہے، جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ اس شیطان کا حالیہ شاخسانہ غزہ کے فلسطینی مسلمانوں پر عین عید کے دنوں میں بولا جانے والا بارودی اور شیطانی دھاوا ہے، جسے پوری دنیا جنگ کا نام دے رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جنگ تو میدانِ کارزار میں للکار، یلغار اور برابر کے ہتھیار کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ اس طرح نہتے نمازیوں، معصوم بچوں ، با عصمت گھریلو خواتین، ہنستے بستے گھروں اور میڈیا کے دفاتر پہ خوف ناک جدید اسلحے کے ساتھ کیے گئے حملوں کو دھونس، بدمعاشی، پھِٹ، دھکا شاہی، بدمستی، شب خون، حرام زدگی کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، جنگ ہر گز نہیں۔ بعض لوگوں کا یہ مؤقف بجا کہ ہماری عظیم فوج کے لیے زمینی حقائق ابھی اسرائیل پہ براہِ راست حملہ کرنے کے لیے سازگار نہیں لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل اور فلسطینی مسلمانوں کا ذاتی اور علاقائی مسئلہ ہے، وہ محض بکواس کرتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کے قبلۂ اول کی سلامتی، عالمِ اسلام کی بقا، حیا اور احیا کا مسئلہ ہے۔ امریکا سے ہماری عزیزہ ہما وائیں نے لکھا ہے کہ: ’’ آپ اپنے بچوں کو یہ ضرور بتایا کیجیے کہ یہ دنیا کا کوئی عام خِطّہ یا محض زمین کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ ہم فلسطین سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ یہ انبیا کی سرزمین ہے… نماز کی فرضیت کے بعد یہی مسلمانوں کاقِبلۂ اول مقرر ہوا… نبیِ مکرم ﷺ معراج سے قبل اسی مسجدِ اقصیٰ میں لائے گئے، جہاں انھوں نے تمام انبیاکرام کی امامت فرمائی… مسجدالحرام کے بعد دنیا میں بسائی جانے والی پہلی مسجد بھی یہی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اسی فلسطین کی جانب ہجرت فرمائی۔ حضرت داؤد ؑ نے یہیں سکونت اختیار کی ۔حضرت سلیمان ؑ نے اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت کی، سلیمان ؑ اور چیونٹی کا واقعہ اسی ملک کی ایک بستی عسقلان میں پیش آیا، بعد میں اسے وادیِ نمل کا نام دیا گیا۔ قرآن میں مذکور طالوت جالوت کا واقعہ بھی یہیں کا ہے۔شرک سے پاک جگہ ہونے کی بنا پر موسیٰ ؑنے اپنی اُمت کو اسی شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا۔حضرت زکریا ؑ کا محراب بھی اسی شہر میں ہیَ کنواری مریم ؑ کے بطن سے عیسیٰ ؑ کی ولادت اسی شہر میں ہوئی، عیسیٰ ؑ کو آسمانوں پہ اٹھانے کا واقعہ بھی اسی جگہ پیش آیا، قیامت کے دن وہ اسی جگہ دوبارہ تشریف لائیں گے، جہاں لُد کے مقام پر وہ دجّال لعین کو قتل کریں گے۔‘‘ آج ایک طرف ہم سوشل میڈیا پہ اس واقعے کو بھی تفریح کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔دوسری جانب ہمارے ہاں دین کے سب سے بڑے ٹھیکے دار خالی خولی مذمت سے کام چلا رہے ہیں، یا اپنی اپنی فرقہ بازی اور سیاست چمکا رہے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے پھِکی وردی اور مزید پھکے جذبوں والے سپاہی کیا صرف مفت کے حلوے اورسیاسی دھرنوں کے لیے ہیں؟ جماعت اسلامی کے مجاہد کدھر ہیں؟ کسی کھرب پتی سیاست دان کی جانب سے بھی فلسطین فنڈ کے کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کی خبر ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کیا یہ نیکی صرف فیصل ایدھی اور حکومت کے لیے مخصوص ہے؟عوام بھی روایتی ٹائر جلاؤ، راستے روکو، قسم کے احتجاج میں مصروف ہیں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر شعیب احمد، جو پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر اور خوبصورت شاعر ہیں، نے اپنی نظم ’’فلسطین کے لیے‘‘میں اس گھمبیر صورتِ حال کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے، ملاحظہ فرمائیں: ’’ چلو آؤ سڑکوں پہ نکلیں/ تماشے کریں/ دُھول اڑائیں/ نکالیں جلوس اور ٹائر جلائیں/ چلو آؤ نعرے لگاتے ہوئے/ شاہراہوں کو مسدود کر کے/ عمارات پر سنگ باری کریں/ اور کسی چوک میں/ پھینک کر پرچمِ دشمناں نذرِ آتشِ کریں/ اور مشاہیرِ دنیائے الحاد کی/ قدِ آدم تصاویر کو پھاڑ کر/ اپنے جوتوںسمیت ان پہ ناچیں/ چلو اپنے اپنے مسالک کے ٹھیلے لگائیں/ ٹرکوں کے چھجوں پہ چڑھ کر تقاریر جھاڑیں/ شرر بارلہجوں میں، لفظوں سے شعلے نکالیں/ چلو آئیں چیخیں/ یہودو نصاریٰ کی بڑھتی ہوئی بربریت پہ ماتم کریں/ چھاتیاں پیٹتے، داڑھیاں نوچتے، بَین کرتے ہوئے/ آؤ واپس چلیں/ فیس بُک پر لگائیں تصاویر/ سب کو دکھائیں وہ بَینر، سنائیں وہ نعرے/ جو ہم نے لگائے/ فلسطین میں مار کھاتے ہوئے/ اپنی اُمت کے لاچار لوگوں کے حق میں / چلو آؤ/ معصوم بچیوں کی/ فریاد کرتے ہوئے، گڑگڑاتے ہوئے/ خوں میں لتھڑے ہوئے/ کچھ مناظر بھی اپ لوڈ کر دیں/ اور ان پر پسندیدگی کے نشانوں کو گنتے ہوئے/ سرخرو ہوں/ کہ ہم نے تو اپنے مسلمان ہونے کا/ حق بھی ادا کر دیا ہے/ چلو آؤ/ گھر پر مصلّے بچھائیں/ چلو ہاتھ اٹھائیں/ چلو بد دعا کریں/ ظالموں جابروں کے لیے/ اور ان کی حمایت میں/ خاموش بیٹھے ہوئے سب / ممالک کے محکوم حاکم نما،حاکموں کے لیے!/ چلو آؤ/ اللہ کے کھاتے میں ڈالیں/ وہ خود جانے یا پھر فرشتوں کو بھیجے/ لڑے یا لڑائے/ چلو آؤ چاہیں/ کہ وہ اپنی قدرت سے/ نابود کر دے یہودی عساکر کو/ اور اپنی مسلم قیادت کوان پر فتح یاب کر دے/ چلو آؤ/ دھوکے میں رکھیں/ خدا کو، فلسطینیوں کو/ مسلمان اُمت کو، خود کو!/ چلو آؤ مگر مچھ کے آنسو بہائیں! ‘‘ ذرا ایمان داری سے بتائیں کہ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں کلمۂ خیر کہنے سے پہلے یہودیوں کی بنائی ہوئی وہ اشیا جن کا شمار اشیائے ضروریہ میں بھی نہیں ہوتا دریا بُرد کرنے اور آیندہ اس سے پرہیز کرنے کے لیے تیار ہیں؟ شاید ایک فیصد بھی نہیں! کسی نے سچ لکھا ہے کہ اپنی مسجدیں خالی پڑی ہیں اور تمام مومنین فیس بُک پہ مسجدِ اقصیٰ آزاد کروانے میں لگے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جناب احمد ندیم قاسمی نے مسلمانوں کی عملی جدوجہد سے مایوس ہو کر ہی رحمۃالعالمین ﷺ کے حضور یہ فریاد کی تھی: ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا