وزیر اعظم عمران خان نے 25ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدن والے افراد کو راشن خریداری میں معاونت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے احساس انڈر گریجوایٹ سکالرشپ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ وفاق اور صوبے مل کر سفید پوش طبقے کا سہارا بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ریاست ہے، کمزور طبقے کو اوپر لانا ریاست کی ذمہ داری ہے جس کے لیے آئندہ بجٹ میں رقم مختص کی جائے گی۔ وزیر عظم عمران خان پہلے دن سے غربت اور افلاس کے شکار طبقات کی بہبود کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ کم آمدنی والے طبقات کی بدنصیبی ہے کہ انہیںجس وقت عمران خان کی شکل میں ایک ہمدرد حکمران ملا تب تک قومی خزانہ کرپشن اورقرض کی ادائیگی پر لٹایا جا چکا تھا۔ وزیر اعظم بارہا اپنی تقاریر میں چین کی ستائش کر چکے ہیں۔ چند برسوں میں چین کے 70کروڑ افراد خط غربت سے نجات پا چکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کا غربت سے نجات پانا معمولی کام نہیں۔ اس کارنامے کا اثر پورے چینی معاشرے پر خوشگوار طور پر ظاہر ہوا ہے۔ وہاں کے لوگوں نے ضروریات زندگی خریدنا شروع کیں۔ کارخانوں کو نئے آرڈر ملے۔ پوری معیشت اس خوشحالی اور آسودگی کے دم سے ترقی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں 6کروڑ کے لگ بھگ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، گویا ملک کی 30فیصد آبادی کی روزانہ آمدن ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ یہ لوگ حکومتوں کی منصوبہ بندی کا محور نہیں ہوتے، ان کے لیے نہ کوئی گھر بنائے جاتے ہیں نہ ان کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ کارآمد ہنر اس طبقے کو نہیں سکھائے جا رہے۔ ان کی بہبود کے لیے جو منصوبے تیار کیے گئے وہ بالائی طبقات کی لوٹ مار کی نذر ہو گئے۔ سن2008ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ اپنے مقاصد کے اعتبار سے یہ ایک مفید منصوبہ تھا۔ حکومت کے سامنے ایک سوال یہ تھا کہ اس مفید پروگرام سے کن لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ سرکاری حکام نے غوروفکر کے بعد طے کیا کہ نیشنل ڈیٹا رجسٹریشن اتھارٹی سے مدد لی جائے گی۔ نادرا کے ریکارڈ میں جو خاتون مالی اعتبار سے تنگ دست تھی اسے مدد کا اہل تصور کیا گیا، بیوہ، کرایہ دار، دور دراز کے علاقوں میں روزگار کی متلاشی خواتین کو کارڈ دیئے گئے جن کی مدد سے وہ اے ٹی ایم مشین سے خود رقم نکلوا سکتی تھیں۔ ان ناخواندہ اور غریب عورتوں کے ساتھ پہلا ظلم تو یہ ہوا کہ انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز ان گھرانوں میں بھی جانے لگے جو آسودہ حال تھے۔ نیب نے حالیہ دنوں اس پر تحقیقات کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ کئی گریڈ 19اور 18کے افسران کی بیویاں اس فنڈز سے فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ سینکڑوں گریڈ 17کے ملازمین اس سکیم کا کارڈ استعمال کر رہے تھے۔ احساس پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ایسے ڈیڑھ لاکھ افراد کا پتہ چلایا جو مستحق نہیں تھے لیکن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نادرا کے ریکارڈ میں مستحق افراد کے بارے میں معلومات نادرست اور ناکافی ہیں۔ حکومت اگر راشن کی تقسیم کے حوالے سے امدادی سکیم کو نتیجہ خیز بنانے کی آرزو مند ہے تو اسے سرکاری سطح پر مستحق افراد کے سروے کے ساتھ خاص طور پر ان گھرانوں کا کھوج لگانا ہو گا جو مستحق ہیں لیکن لاعلمی، ناواقفیت یا کسی اور وجہ سے حکومتی سکیموں سے استفادہ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کم آمدن والے خاندانوں کے لیے حکومت نے سستے راشن کی سکیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سرکاری سرپرستی میں راشن ڈپو قائم کیے گئے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں یوٹیلیٹی سٹور کے ادارے کو کنٹرول نرخوں پر اشیائے خورونوش کی فراہمی کے لیے استعمال کیا گیا تا ہم مؤخرالذکر دونوں حکمرانوں نے یوٹیلیٹی سٹور کی سروسز اور اشیا کے معیار پر توجہ نہ دی۔ یوٹیلیٹی سٹور کا ادارہ باقی سرکاری اداروں کی طرح اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ کرپشن، یونین بازی اور سیاسی مداخلت نے اس مفید ادارے کا ڈھانچہ تباہ کر دیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے حالیہ بحرانوں کے دوران یوٹیلیٹی سٹور کو پھر سے فعال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ملازمین کا روزگار بچ جائے گا اور عوام کی بہبود کا ایک آزمودہ ادارہ قائم رہ سکے گا تا ہم احتیاط درکار ہو گی کہ اشیاء کی خرید کے لیے ٹینڈر کا نظام شفاف اور مستعد بنایا جائے۔ کچھ عناصر ٹینڈر میں تاخیر کر کے اشیاء کی طلب کے عروج پر عوام کو یوٹیلیٹی سٹور سے مایوس لوٹانا چاہتے ہیں۔ حکومت جن اشیا کی رعایتی نرخوں پر فراہمی چاہتی ہے ان کے نرخنامے عوامی مقامات پر آویزاں کیے جائیں اور ان کے معیار میں کسی طرح کی کمی بیشی پر سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ پاکستان میں لاکھوں خاندان 25ہزار روپے سے کم ماہانہ کماتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کے لیے حکومت کی امدادی سکیم ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ستائے عوام کو سہولت فراہم کرنے کا موجب ہو سکتی ہے تو دوسری بنیادی ضروریات کی ہرفرد کو فراہمی کا عمل بہتر ہو سکے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ ہفتوں میں جس طرح حکومتی اور سرکاری مشینری کو عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر لگایا ہے اس سے ایک امید پیدا ہو رہی ہے کہ عشروں سے سیاسی مداخلت، بدعنوانی، اقربا پروری اور لوٹ مار کے ماحول نے محروم طبقات کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی اب یہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ حکومت نے اس سکیم کو اپنی کڑی نگرانی میں رکھا اور ماضی کی حکومتوں والی غلطیاں نہ دہرائیں تو غربت میں تخفیف کی کوششیں مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔