بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے جو امریکہ اور چین کے درمیان واقع ہے۔ دونوں بڑے ملکوں کی تجارت کے لیے یہ وسیع و عریض سمندر شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین تناؤ اور کشیدگی کا علاقہ‘ فلیش پوائنٹ تائیوان اسی سمندر میں واقع ہے۔ یہاں پر ایٹمی ہتھیاروں اور بلاسٹک میزائیلوں سے لیس شمالی کوریابھی ہے جو امریکی بالادستی اورخطہ میں اسکے اتحادی ممالک کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتاہے۔ بحر الکاہل چھ کروڑساٹھ لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اسکا طول و عرض زمین پر خشکی کے مجموعی رقبہ سے بھی زیادہ ہے۔بحرالکاہل کا محل وقوع ایسا ہے جہاں دنیا کے امیر ترین ممالک واقع ہیں۔اس کے مشرق میں امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک واقع ہیں اور مغرب میں چین‘ جاپان‘ جنوبی کوریا ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور مشرق بعید کے دیگر ممالک جو دنیا کی بڑی معیشتوں کے حامل ہیں۔ شمال مشرق میں رُوس کی سرحد لگتی ہے۔ اس کے اندر بڑے ملکوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے آباد اور غیر آباد جزائر واقع ہیں ۔ ان میں خاص طور سے ہیٹی‘ فیجی‘ نیو کیلی ڈونیا‘ نیو گینیا‘ نیو اائیر لینڈ‘ نیو جارجیا ایسے جزائر شامل ہیں۔ برطانیہ‘ فرانس‘ ہالینڈ‘ پرتگال کے جہازرانوں‘ تاجروں اور حکمرانوں کو تین سو سال پہلے ہی یہ سمجھ آگئی تھی کہ دنیا پر غلبہ کے لیے بحرالکاہل پر تسلط حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہسپانوی بادبانی جہازوں سے لاطینی امریکہ سے چاندی یورپ اور ایشیا لے جاتے تھے اور گرم مصالحے‘ ریشم‘ سونا اور دیگر چیزیں ایشیا اور یورپ سے امریکہ اور لاطینی امریکہ پہنچاتے تھے۔ اس وقت ایشیا کے زرعی معاشرے بالخصوص مسلمان سلطنتیں جیسے سلطنت عثمانیہ‘ مغل سلطنت اپنی خوشحالی میں مگن زندگی گزار رہی تھیں اور باہر کی دنیا کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔یورپی اقوام سمندری راستوں پر غالب ہوتی گئیں اور بالآخرا نہوں نے مسلمان سلطنتوں اور دیگر ایشیائی معاشروں جیسے چین اور جاپان کو اپنا محکوم بنالیا۔ دنیا اسی کی ہے جس کا سمندروں پر کنٹرول ہے۔ امریکہ کی بحرالکاہل میں دلچسپی انیسویں صدی کے وسط میں ہوئی جب اس نے میکسیکو کو جنگ میں شکست دیکر کیلی فورنیا کا علاقہ اس سے چھین لیا اور اسے امریکہ کا حصہ بنالیا۔ یورپی اقوام نے امریکی براعظم کے مغرب کی جانب ہجرت کرنی شروع کی۔ چین سے بیش بہا تجارت بحرالکاہل سے متصل امریکہ کے مغربی ساحلوں سے ہوتی تھی۔ انیسویں صدی کے وسط میں کوئلہ سے چلنے والے بحری جہاز بن گئے تو بحری تجارت اور تیز ہوگئی۔ ان جہازوںکیلئے وسیع و عریض بحر الکاہل میں ایسے زمینی اسٹیشنوں کی ضرورت تھی جہاں اُن میں کوئلہ بھرا جاسکے ۔ کیونکہ بحری جہازمیں جلنے والا کوئلہ بیچ سمندر میںختم ہوجاتا تھا۔ اسی مقصد کے لیے 1898میں امریکہ نے ہوائی جزائر پر قبضہ کرکے انہیں اپنی ریاست میںشامل کرلیا۔ان جزائرکی مشہور خوبصورت بندرگاہ پرل ہاربر بحری جہازوں میں کوئلہ بھرنے کا بڑا اسٹیشن تھی۔ ہوائی جزائر پر قبضہ کے بعد ہی امریکہ بحرالکاہل کی بڑی طاقت کے طور پر ابھرا۔ ان جزائر سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور جاپان کا زرعی معاشرہ اس وقت اپنی دنیا میں مست تھا۔ باہر کی دنیا سے بے خبر۔ امریکیوں کو بحری جہازوں میں کوئلہ بھرنے اور عارضی قیام کیلیے جاپان کے ساحلوں کی بھی ضرورت تھی ۔ امریکیوں نے جاپان سے اسکی بندرگاہوں کو استعمال کرنے کا معاہدہ کیا ۔ جاپان انیسویں صدی کے آخر میں بڑی صنعتی طاقت بنا اور اس نے بحری جہاز بنانے شروع کیے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے ہوائی جزائر میں امریکہ کے اہم بحری اڈہ پرل ہاربر پر اچانک فضائی حملہ کرکے اسکی بحریہ کو شدید نقصان پہنچایا ۔امریکہ کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ وہ بحرالکاہل میں اپنی بالادستی کھونے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے جواب میںجاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے اور اُسے مغلوب کرلیا۔ آج جاپان فوجی اور سفارتی اعتبار سے امریکہ کا بغل بچہ ہے۔ بحرالکاہل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکہ نے جنوبی کوریا میں اپنے فوجی اڈّے بنائے۔ ویت نام میں ہولناک جنگ کی۔ فلپائن اور آسٹریلیا کواتحادی بنایا۔ انڈونیشیا میں سہارتو کی فوجی بغاوت کرواکر اسے اپنے حلقۂ اثر میںشامل کیا۔ مغربی ساحل سے لے کر آسٹریلیا تک بحرالکاہل میں امریکہ کے چھ بحری بیڑے ‘ ایٹمی ہتھیاروں سے چلنے والے درجنوں جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں اوران پر تعینات جدید ترین جنگی ہوائی جہاز تعینات رہتے ہیں۔ پھر بھی امریکہ کو چین کے عروج کی وجہ سے اس سمندر میںاپنی بالادستی کھونے کا اتنا خوف ہے کہ اس نے حال میںکینیڈا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا کے ساتھ ’آکس ‘نامی فوجی معاہدہ کیا۔ اس سمجھوتہ کے تحت انکل سام آسٹریلیا کو ایٹمی توانائی سے چلنے والی جدید ترین بحری آبدوزیں دینے اور ان کو تیار کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے جارہا ہے۔امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک سمجھتے ہیں کہ بیجنگ بحرالکاہل میں غیرآباد جزائر کو آباد کرکے ان پر قبضہ کررہا ہے اور وہاں اپنے بحری‘ فوجی اڈے تعمیرکررہاہے۔ امریکہ اور جاپان نہیں چاہتے کہ چین باقاعدہ طور پرتائیوان کو اپنا حصّہ بنائے۔ وہ تائیوان کو آزاد اور اپنا اتحادی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ تائیوان جنوب چینی سمندر میں ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے ضرورت پڑنے پر چین کی ناکہ بندی کی جاسکتی ہے۔ بیجنگ اعلان کرچکا ہے کہ تائیوان اسکا لازمی جزو ہے اور اسکی علیحدہ آزاد ملک کی حیثیت اسکے لیے قابل قبو ل نہیں۔ بحرالکاہل کے مغرب میں جڑ اہوا بحر ہند ہے۔ یہاں امریکہ نے چین کو محدود کرنے کے لیے بھارت کو اپنے اتحاد’ کواڈ‘ میں شامل کیا ہے۔ بحرالکاہل میں چین کے گھیراؤ کی امریکی کوششیں بحر ہند میں پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ پاکستان کی بندرگاہیں اور وسط ایشیا اور ایران سے زمینی راستے چین کو متبادل بحری‘ تجارتی راستہ فراہم کرتی ہیں۔