اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقوام متحدہ کا فورم ، شاطر ،عیار ،مکار ،سفاک اورظالم امریکہ اور یورپ کی لونڈی بن چکا ہے ۔امریکہ کواپنی غنڈہ گردی ، سینہ زوری ،بدمعاشی اوردرندگی کامظاہرہ کرناہوتاہے تووہ اس فورم کواستعمال کرکے عراق سے افغانستان تک ایسی کارپٹ بمنگ کرتاہے کہ ان خطوں میں انسانی وجود،اسکی پرچھائیوں اورروح انسانیت کوپگھلاکررکھ دیتاہے۔ لیکن جب وہ اسے صامت وساکت رکھناچاہتاہے تواس پرایسی طنابیں کس دیتاہے کہ جسے یہ فورم ایسا بے حس وحرکت ہوجاتاہے کہ جیسے یہ ایک تن مردہ یاایک لاش ہے کہ جس سے جان نکالی جاچکی ہے ۔اس فورم کی صورتحال بزبان حال یہ بتاتی ہے کہ امریکہ اورمغرب کی جعل سازی کے لئے یہ ایک طاقتور عالمی فورم ،عالمی ادارہ تو کہلاتاہے لیکن مسلمانوں کے لئے اس کی حیثیت صرف ’’دیوارگریہ ‘‘کی ہے کہ جہاں آکرمسلمان اپناروناروتے ہیں اوربس ۔ اقوام متحدہ کاواضح طورپریہ پس منظر رکھنے کے باوجود اس کی جنرل اسمبلی میں ماہ ستمبر کے اواخر پراس کے رکن ممالک میں سے بیشتروزرائے اعظم اورصدورکوتقاریرسنانے کا موقع مل جاتاہے ۔مسلمان ممالک کے وزرائے اعظم اورصدورکواس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے اورامریکہ ،یورپ کی منافقت اورظلم اورانکے حلیفوں اوران کے حواریوںکی سفاکیت کاپردہ چاک کردیناچاہئے اوران کے سامنے روبروبیٹھ کران کے چہروں پر کالک مل دینی چاہئے ۔لیکن افسوس اب تک کئی برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترکی ،پاکستان اورملیشیاکے سواکوئی شیرمرداٹھ کریہ کام نہیں کرپاتا۔24ستمبر2021جمعہ کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے جگردارانہ اورشیر دلانہ ورچوئل خطاب کرتے ہوئے امریکہ اوریورپ کی منافقت طشت ازبام کرتے ہوئے بھارت کے سیاہ چہرے پرمزید کالک مل دی، جس سے بھارتی چہرہ مزیدکالاہوگیاجبکہ ان سے قبل ترکی کے صدر اردوان نے بھی اسی طرح کے کرداروعمل کامظاہرہ کیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی 25منٹ تقریر کاسب سے غالب حصہ بھارت کی سفاکیت کوطشت از بام کرنے اور افغانستان کے حوالے سے امریکہ اوریورپ کی منافقت کوشرمندہ کرنے پرمنحصررہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے’’ اسلاموفوبیا ‘‘کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ممالک مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔بھارت کے وزیراعظم مودی اوربھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا میںاسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں ہے کہ جہاںاسلامی تاریخ اور مسلم ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریرمیںمودی کی سرپرستی میںبے جی پی حکومت کی جانب سے پانچ اگست 2019 کے بعدمقبوضہ جموںوکشمیر میں اٹھائے گئے بھارتی اقدامات اور9 لاکھ قابض فوج کے ذریعے انسانی آبادیوں پرڈھائے جانے والے مظالم کوسامنے لاکربھارت کے چہرے کوایک بار پھر بے نقاب کرکے رکھ دیا۔انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت جوکچھ مقبوضہ کشمیرمیں کررہاہے وہ ساری سفاکانہ کارروائیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوںکی صریح خلاف ورزی ہیں اور ان قرار دادوں میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ یہ ریاست جموںوکشمیر ایک حل طلب متنازعہ مسئلہ ہے،جسے صرف اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کروائے گئے ایک شفاف اور آزادانہ استصوابِ رائے کے تحت حل کرنا ہوگا ۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریرمیںکہا کہ اگر عالمی برادری نے افغانستان کو پس پشت ڈال دیا تو نہ صرف مستقبل میں بہت سنگین نوعیت کے انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا،جس کے اثرات افغانستان کے پڑوسی ممالک پر بھی پڑیں گے، بلکہ ایک غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ہوجائے گا۔اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں ہونے والی جنگ میں اُن کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک پاکستان ہے لیکن بجائے پاکستانی مدد کی تعریف کرنے کے بجائے دنیا کی جانب سے پاکستان پر افغانستان کے واقعات کے حوالے سے الزام تراشی کی جاتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کی خاطر یہ لازمی ہے کہ موجودہ حکومت کو مستحکم کیا جائے اور اگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرے تو یہ سب کے لیے کامیابی ہو گی۔انھوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام کو امداد کی اشد ضرورت ہے اور یہ ان کے لیے بہت نازک وقت ہے اور اسے ضائع نہیں کیا جاسکتا اور صرف اقوام متحدہ ہی عالمی برداری کو اس مقصد کے لیے متحرک کر سکتا ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے 80کی دہائی میں افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے مابین ہونے والی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے نہ صرف ان کو وائٹ ہاؤس دعوت دی بلکہ ان کا موازنہ امریکہ کے بانیوں کے ساتھ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آ گئے اور تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان فوج نے ان کے خلاف لڑائی کیوں نہ کی تو جس لمحے اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔