راولپنڈی کرونا سے شدید متاثرہ ضلع بن چکا ہے۔ اسی لیے جناب شفقت محمود نے اعلی سطحی میٹنگ کے بعد ٹویٹ کیا کہ متاثرہ اضلاع میں سکول اور یونیورسٹیاں تو بند رہیں گی البتہ دسویں گیارہویں کی کلاسیں Staggered basis پر ہوا کریں گی۔ اسی روز وزیر تعلیم برادرم مراد راس نے ٹویٹ کے ذریعے ایک ’’ انائونسمنٹ‘ کی اور دو چیزوں کی وضاحت کی۔ پہلی یہ کہ راولپنڈی بھی متاثرہ اضلاع میں شامل ہے اور دوسرا یہ کہ Staggered basis کا مطلب یہ ہو گا کہ ہفتے میں دو دن یعنی سوموار اور جمعرات کو کلاسز ہوا کریں گی۔وفاقی اور صوبائی وزیر تعلیم کے ان واضح اعلانات کے باوجود راولپنڈی کے کالجز کی جانب سے طلباء اور ان کے والدین کو میسجز بھیجے گئے کہ کالجز پورا ہفتہ کھلیں گے اور آج جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ، راولپنڈی کے کالجز کھلے ہوئے ہیں جو نہ صرف حکومتی ایس او پی کی پامالی ہے بلکہ دونوں وزرائے تعلیم کے احکامات کی بھی صریحا خلاف ورزی ہے۔ راولپنڈی میں کورونا کی صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ کرونا کے 3483 ایکٹو مریض یہاں موجود ہیں۔1198 لوگ ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ہر ہسپتال کی حالت یہ ہے وہ کرونا کے مریضوں سے بھر چکا ہے ۔شہر میں پانچ جگہوں پر سمارٹ لاک ڈائون ہے۔ ایسے میں ایک اعلی سطحی اجلاس ہوتا ہے جہاں صحت اور تعلیم کے ماہرین بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ راولپنڈی ایک متاثرہ ضلع ہے اس لیے یہاں سکول اور یونیورسٹیاں تو بند رہیں گی البتہ نویں سے بارہویں کی کلاسز ہفتے میں دو دن ہوا کریں گی۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون مخبوط الحواس ہے جو ریاست کے اس اہم ترین فیصلے کو پامال کرتے ہوئے پورے ہفتے کے لیے کالجز کھول کر بیٹھ گیا ہے؟ یاست نے اعلی سطح پر ایک فیصلہ کیاہے جو طلباء اور اساتذہ کی زندگیوں کی حفاظت کے پیش نظر کیا ہے۔ یہ کوئی عام انتظامی نوعیت کا معاملہ نہیں کہ پرنسپل خواتین و حضرات پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے اور اس پر ریاست فیصلہ کر چکی ہے۔ اب کسی کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ واٹس ایپ گروپوں کی شکل میں ابلیس کی مجلس شوری بنا کر اپنے ہی وزیر تعلیم کے فیصلے پامال کرے اور بچوں کی زندگی خطرے میں ڈالے۔ حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ رٹ آف سٹیٹ صرف سڑکوں پر پامال نہیں ہوتی۔ یہ سرکاری ملازمین کی خودسری اور انا پرستی سے بھی پامال ہوتی ہے۔ بچے اور ان کے والدین ٹوئٹر سے وزرائے تعلیم کے ٹویٹ اٹھا کر کالج انتظامیہ کو بھیج رہے ہیں کہ ریاست کا فیصلہ تو یہ ہے کہ دو دن کلاسز ہوں گی تو آپ ہمیں چھ دن کیسے بلا سکتے ہیں اور آگے سے جواب دیا جاتا ہے آپ چھ دن ہی آئیں گے یہ ہمارا فیصلہ ہے۔ ریاست کے اعلی سطحی فیصلے کو جس کا ابلاغ دو وزرائے تعلیم کر چکے ہوں اگر واٹس ایپ پر ابلیس کی مجلس شوری کے انداز میں ماتحت انتظامیہ روند کر پھینکنے لگے تو یہ بھی رٹ آف سٹیٹ کو چیلنج ہی ہوتا ہے اور اس کے بھی طلباء کی نفسیاتی اور فکری تشکیل پر مضر اثرات ہوتے ہیں۔ ہر دو وزرائے تعلیم سے یہ بھی درخواست ہے کہ اپنے فیصلوں کا ابلاغ اردو زبان میں کیا کریں ۔ آپ کے پرنسپلز کا ہاتھ انگریزی میں خاصا تنگ ہے۔ برادرم مراد راس کی وضاحت کے باوجود انہیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہStaggered Basis سے کیا مراد ہے۔اور اگر فیصلوں کا ابلاغ انگریزی میں ہی کرنا ہے تو جملہ پرنسپل حضرات کے ہر سال انگریزی کے دو چار ریفریشر کورس کروا دیا کریں تا کہ ان میں اتنی اہلیت تو ہو کہ انگریزی کے ایک لفظ پر ہانپ نہ جایا کریں۔ مجھے تو حیرت ہو رہی ہے کہ اگر ان پرنسپل حضرات کی فکری استعداد کا یہ عالم ہے کہ ایک لفظ کا مطلب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا اور اس کے باوجود نہیں آ رہا کہ مراد راس اس کی وضاحت کر چکے ہیں تو ان طلباء کا مستقبل کیا ہو گا جو ان کی فکری ترک تازیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ پاکستان میں کمیونٹی کی سطح پر سوچنے کا کوئی رواج نہیں ورنہ اگر یہ سماج اس باب میں حساس ہوتا تو پرنسپل حضرات کے اس رویے پر ایک طوفان اٹھ کھرا ہوتا کہ وبا کے دنوں میں جب ریاست ایک فیصلہ کر چکی ہے تو پرنسپل کون ہوتے ہیں کہ ریاستی فیصلے کو پامال کرتے ہوئے بچوں کی زندگی کو دائو پر لگا دیں۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ اس خطرناک ماحول میں بچوں کے فیصلے ریاست اور وزیر تعلیم نے کرنے ہیں یا مقامی طور پر ابلیس کی مجلس شوری کی طرز پر واٹس ایپ گروپوں میں ہونے ہیں؟ بطور شہری ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ وبا کی زد میں آئے راولپنڈی شہر کے تعلیمی اداروں کے فیصلوں کا اختیار ریاست اور وزیر تعلیم ہی کے پاس ہے یا مقامی پرنسپل حضرات یہ اختیار ان سے چھین چکے ہیں۔ ریاست کو اگر اپنی عملداری کا احساس ہے اور وزارت تعلیم اس باب میں کامل بے نیاز نہیں ہو گئی تو ہر اس کالج کی انتظامیہ اور پرنسپل کے خلاف کرونا ایس او پی کی خلاف ورزی اور پیشہ ورانہ مس کنڈنکٹ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے جس نے ریاستی سطح پر ایک اعلی سطحی فیصلے کو پامال کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو اپنا روجواڑا بناتے ہوئے بچوں کی زندگی کو دائو پر لگایا ہے۔ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بھی باز پرس ہونی چاہیے کہ جب وزیر تعلیم راولپنڈی کو ایک دن پہلے متاثرہ ضلع قرار دے چکے اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر چکے تو ہائر ایجوکیشن کے نوٹی فکیشن میں راولپنڈی کو کیسے حذف کیا گیا؟ کیا مراد راس نے ایک دن پہلے غلط لکھا یا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے غلطی ہوئی؟ کیا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور وزیر تعلیم کے درمیان کوئی کوآرڈی نیشن نہیں ہے؟ کیا دونوں کے اطلاعات کے ذرائع مختلف ہیں؟ کیا کورونا سے نبٹنے کے لیے حکومت کی انتظامی اہلیت کی کہانی بس اتنی سی ہے؟ برادرم مراد راس اور شفقت محمود صاحب کیا ہماری رہنمائی فرمائیں گے؟