راوی،ویسے تو پنجاب کے اُن مشہور دریاؤں میں سے ایک دریا ہے،جس پر شہر لاہور واقع،کسی دور میں،ایک نیم دائرے کی شکل میں شہر کے شمال کی طرف سے گزرتاہوا،اس کی مرکزی فصیل کے ساتھ بہتا تھا،پھر شہر کو اس سے خطرات در پیش ہوئے اور اورنگ زیب عالمگیر نے،اسکے کنارے،تقریباً 4میل کے فاصلے تک،پختہ اینٹوں اور چونا گارے کا ایک بڑا بند تعمیر کرواکے اُس کا رُخ موڑا،جس سے شہر کو محفوظ بنا دیا گیا۔ لیکن سرِ عنوان میں مستعمل’’راوی‘‘کا مطلب روایت کرنے والا یعنی بات کو سُن کر آگے پہنچانے والا،ناقِل، مُؤرِّخ،مُصنف،قصہ خواں وغیرہ ہے،اسی سے کچھ ضرب الامثال بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں،جیسے’’دروغ بر گردنِ راوی‘‘یا’’راوی چین لکھ رہا ہے ‘‘وغیرہ،اسی طرح علم الحدیث میں بھی،حدیث کو روایت کرنے والا’’راوی‘‘ کہلاتا ہے،یعنی جو شخص سلسلۂ اسناد کے ساتھ ،حدیث کو بیان کرے۔ویسے تو علم حدیث کی دو قسمیں ہیں، ایک علم حدیث بلحاظِ روایت اور دوسرا علم حدیث بلحاظِ درایت، ان دونوں کے تحت ، مختلف مباحث کے مجموعے کو علومِ حدیث کہا جاتا ہے۔ علم حدیث’’روایۃً‘‘ کا تعلق متن اور سند دونوں سے ہے،اس میں اسناد کا ناقدانہ مطالعہ،روات کی معرفت و ثقاہت اور پھر اس کے ضمن میں حدیث کی مختلف اقسام کا مطالعہ جبکہ’’درایۃً‘‘کسی روایت کے مطلب و مضمون کی عقلی تنقید کا نام ہے، جس سے’’راوی‘‘کے قابلِ قبول ہونے اور ناقابلِ قبول ہونے کا پتہ چلتا ہے۔اس سے مزید کئی علوم معرضِ عمل میں آئے،جیسے علم الجرح والتعدیل، علم اسماء الرجال ، علم مختلف الحدیث، علم غریب الحدیث، علم علل الحدیث اور علم الناسخ والمنسوخ وغیرہ۔۔۔ یہ اصول حدیث کی نہایت دقیق فنی بحثیں ہیں، یہ سطور جنکی متحمل نہ ہوسکتی ہیں، لیکن یہ ہماری علمی روایت کے امتیازات و تخصصات ہیں، ان سے قلم کوروکنا بھی ذرا مشکل ہے ۔ بہرحال۔ہمارے ہاں محض وقائع نگاری ہی نہیں، بلکہ خطیبانہ روایت میں بھی یہ لفظ خوب استعمال ہوتا ہے، بطورِ خاص۔۔۔خطیب محترم۔۔۔کا خطبۂ عالیہ جب اپنے نقطہ کمال پر ہو، اور وہ کسی واقعہ کو بیان بھی ضرور کرنا چاہتے ہوئے اور اس کا حوالہ بھی انہیں مستحضر نہ ہو اور اگر ہوبھی، تو بیان کے شایاں نہ ہو، تو پھر وہ پورے واعظانہ بلکہ،خطیبانہ جاہ و جلال اور زور و شور سے کہتے اور بعض اوقات کہتے ہی چلے جاتے ہیں کہ’’راوی کہتا ہے‘‘۔۔۔۔ تو پھر اب آپ بھی جانیئے اور سُنیے کہ ۔۔۔راوی کہتا ہے،کہ حکومت پاکستان نے 1977ء میں علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے اہتمام کے لیے ایک قومی کمیٹی تشکیل دی، جس میں ڈاکٹر محمد افضل، ڈاکٹر محمد اجمل ، ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا، اشفاق احمد اور صوفی غلام تبسم جیسی شخصیات شامل تھیں، ان تقریبات میں اقبالیات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام ہونا تھا، جس میں امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، ایران ، ترکی اور کئی دوسرے ممالک کے سکالرز مدعو تھے ، کانفرنس کے شیڈول میں ایک شام موسیقی کے لیے بھی مختص تھی، پروگرام کی حتمی منظوری اس وقت کے صدر عالی شان، جنرل ضیاء الحق نے دینا تھی،جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے،موسیقی ان کے اسلامی مزاج سے مطابقت کی حامل نہ تھی،بنابریں کمیٹی کو خطرہ تھا کہ اس کی شاید منظوری نہ ہوسکے۔ اشفاق احمد،جو اس کمیٹی کے ممبر تھے، نے اس کٹھن مرحلے کو،یہ کہتے ہوئے،اپنے ذمہ لے لیاکہ’’فکر نہ کریں ، یہ کام میرے ذمے رہا، میں جنرل صاحب سے نمٹ لوں گا‘‘۔ جنرل ضیاء الحق کی زیرصدارت ،لاہور میں واقع یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے دفتر میں،اس کمیٹی کا اجلاس ہوا،چیف صاحب کی ہیبت اور رعب کمیٹی روم میں نمایاں تھا،کمیٹی کے سیکرٹری خواجہ غلام صادق،جو شعبہ فلاسفی پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین بھی رہے،ایجنڈا پوائنٹ نکتہ وار بیان کرتے جاتے اور جنرل صاحب کبھی’’یس ‘‘اور کبھی’’نیکسٹ‘‘کہہ کر سر ہلا دیتے،جس کا مطلب اس آئٹم کی منظوری ہوتا۔ بالآخر’’موسیقی‘‘کی باری آگئی ، خواجہ صاحب پل بھر کو رُکے ۔ پھر بولے’’مہمانوں کے لیے ہم نے ایک شام موسیقی کے لیے بھی رکھی ہے‘‘۔ جنرل صاحب خاموش رہے، پھر انہوں نے روایتی انداز میں اپنی عینک اتار کر سامنے میز پر رکھی، گردو پیش کا جائزہ لیا، اصل میں تو اب اشفاق صاحب کی باری تھی کہ وہ اپنا کمال دیکھائیں، چنانچہ اشفاق صاحب نے مداخلت کی، اور گویا ہوئے، "جنرل صاحب! یہ میں نے دیکھ لیا ہے، اصل میں علامہ صاحب کا کلام سنایا جائے گا۔۔۔۔ دوچار گیت ہوں گے۔۔۔ بس یہ ہے موسیقی کا پروگرام"۔۔۔جنرل صاحب نے عینک اٹھا لی۔۔۔قدرے توقف سے بولے ،’’نیکسٹ‘‘۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اُس روز ، اِس میٹنگ میں اشفاق صاحب کی شخصیت کا یہ ہنر نمایاں اور معتبر ہو کر سامنے آیا، ہم سب جانتے تھے کہ وہ کہانی کارہیں، ڈرامے تخلیق کرتے،تہذیب و اخلاق کے داعی اور تصوّف کے خوشہ چیں اور مبلغ ہیں،لیکن کسی صاحبِ جبروت کے سامنے،اپنی بات کو اس سادہ پیرائے میں بیان کرتے ہوئے، اپنے مدعا اور مقصد کی تکمیل کر لینا،ان کی اس صلاحیت اور فن کا بھرپور اظہار،اس اجلاس میں ہوا۔ راوی بیان کرتا ہے ۔۔۔ کہ احمد صادق ایک دبنگ قسم کے بیوروکریٹ تھے، اپنے کیرئیر کے آخری دنوں میں وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے پرنسپل سیکرٹری تھے، بڑے جاہ و جلال کے حامل تھے، 1979-80ء میں،پنجاب کے سیکرٹری ایجوکیشن بھی رہے، ایک مرتبہ ان سے کسی نے کہا کہ "آپ بڑے زبردست قسم کے بیورو کریٹ ہیں۔ تو انہوں نے کہا، صاحب! زبردست اور دبنگ بیوروکریٹ دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو زبردست دکھائی دیتے ہیں،اور دوسرے وہ جو واقعتا زبردست ہوتے ہیں، میرا شمار پہلی قسم میں ہوتا ہے، دراصل ہمارے پاس اتنی ہی طاقت اور اختیار ہوتا ہے،جتنا ہمیں اوپر سے میسر آتا ہے،انہوں نے کہا کہ بینظیر کے دور میں جب میں ان کا پرنسپل سیکرٹری تھا ، تو اس وقت، یہ کوئی باقاعدہ عہدہ نہ تھا، اور نہ ہی اس کے فرائض و اختیارات طے شدہ تھے، وزیراعظم جس قدر اختیارات دے دیتے،اتنے ہی عہدیدار کے پاس ہوتے، لیکن ان دنوں بھی لوگ مجھے زبردست بیوروکریٹ سمجھتے تھے، جبکہ میں خود کو بے بس خیال کرتا تھا۔ ہمارے ہاں مختلف علمی ، ادبی اور دینی محافل اور تقاریب میں’’حفظِ مراتب‘‘اور پروٹوکول کے بڑے مسائل ہوتے ہیں، بڑے اور چھوٹے۔۔۔ سینئر اور جونیئر، تقدم و تأخر یعنی میں اس سے بڑا تھا، تو مجھے اس سے پیچھے کیوں بیٹھا دیا اور میں سینئر تھا اور میرے جونیئر کو میرے سے بڑھ کر اعزاز کیونکہ عطا کر دیا ، راوی بیان کرتا ہے کہ کوئٹہ میں قومی سطح کی محفلِ مشاعرہ آراستہ تھی، احمد ندیم قاسمی صدارت فرما رہے تھے ، جبکہ ان کے ایک طرف منیر نیازی اور دوسری طرف قتیل شفائی براجمان تھے ۔منیر نیازی کی خواہش تھی کہ انہیں قتیل شفائی کے بعد، صاحب صدر سے بالکل پہلے، دعوت کلام دی جائے، مشاعرہ اپنے آخری اور اختتامی مرحلے میں داخل ہونے کو تھا، احمد ندیم قاسمی سے پہلے ،صرف مذکورہ دونوں شعرأ باقی تھے ۔ آخری شاعریعنی ان دو سے پہلے والا شاعر ، اپنی غزل کا مقطع سنا رہا تھا، تو منیر نیازی چپکے سے اُٹھے اور باہر کھسک گئے، سٹیج سیکرٹری صاحب اگلے شاعر یعنی منیر نیازی کا نام پکارنے کے لیے اُٹھا، تو اس نے دیکھا کہ وہ صاحب تو غائب ہیں، لہٰذا مجبوراً قتیل شفائی کا نام پکارنا پڑا، جونہی قتیل صاحب نے اپنا کلام شروع کیا تو موصوف یعنی منیر نیازی سٹیج پر واپس آگئے، قاسمی صاحب نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ واش روم گئے تھے؟، کہنے لگے کہ نہیں،میں ویسے ہی اُٹھ کر باہر چلا گیا تھا، دراصل اس بدکلام سے پہلے نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔