دہشت گردی کے پے درپے واقعات اور انتہاپسندی کے رجحانات نے بھی عربوں کو پاکستانیوں سے بڑی حد تک خائف کردیا ہے۔ وہ پاکستانیوں کی عرب ممالک میں مسلسل آمد اور اثر ونفوذ سے بھی گھبراتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی سیاسی اور مذہبی فکر سے مقامی شہری متاثر ہوسکتے ہیں اور بتدریج حکومت کو چیلنج کرنے لگیں گے۔ وکی لیکس میں ایسے انکشافات ہوئے ہیں کہ عرب ممالک کی لیڈرشپ اور امریکی حکام میں پاکستان میں فروغ پذیر انتہاپسندی کے رجحانات کے مشرق وسطی کے ممالک پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات پر بھی غورکیاجاتارہاہے۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن فیصل نے ایک بار پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا تھا کہ دنیا میں شائد ہی کوئی دو ممالک ایسے جن کے تعلقات پاکستان اور سعودی عرب کی طرح بغیر کسی معاہدے کے دوستانہ اور برادرانہ ہوں۔پاکستانی حکام کو یہ تلخ حقیقت بھی پلے باندھنا ہوگی کہ سعودی یا اماراتی معاشی امداد اب اپنی قیمت مانگتی ہے۔اگر پاکستان ان ممالک کے اشارے پر چلنے پر آمادہ نہیں۔ متوازن یاآزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتاہے تو اسے سعودی عرب کے آگے معاشی امداد کے لیے باربار درخواست کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ اب ان ممالک کی معاشی امداد یا قرض غیر مشروط نہیں رہا۔علاوہ ازیں سعودی عرب کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بے شمار پاکستان نواز رہنما اب منظر نامہ پر نہیں رہے۔ پاکستان کو کئی دھائیوں بعد احساس ہوا ہے کہ کسی بھی کمزور معیشت والے ملک کو اس کی مضبوط فوج زیادہ دیر تک سہارہ نہیں دے سکتی ۔ چنانچہ اب نئی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں معیشت کی مضبوطی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان اب دوسروں کی جنگیں نہیں لڑے گا ۔سابق وزیراعظم عمران خان نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اب کسی علاقائی یا عالمی تنازعہ میں نہیں الجھے گا۔ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا علمبردار بننا چاہتاہے۔ جغرافیہ محل وقوع کو معاشی اورتجارتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے ترقی او ر خوشحالی حاصل کرنا چاہتاہے۔اسی پس منظر میں پاکستانی وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف نے فروری 2021میں بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان بھی کیا گیا لیکن بھارت کی طرف سے مطلوبہ جواب نہ ملنے کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں پائے جانے والی سرد مہری گرم جوشی میں نہ بدل سکی۔ سعودی عرب مسلم دنیا میں اپنی لیڈر شپ اور اسلامی ساکھ برقراررکھنے میں ابھی تک دلچسپی رکھتاہے۔ او آئی سی کے ذریعے مسلم دنیا کی سربراہی بھی اپنے پاس رکھنا چاہتاہے لہٰذا وہ پاکستان کو ترکی ، ایران اور ملائیشیا کی طرف کلی طور پر دھکیلنا نہیں چاہتا۔پاکستان کو سعودی عرب کو اپنے قریب رکھنے کے حوالے سے طویل المعیاد منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔پاکستان عرب ممالک میں موجود تارکین وطن ہنر مند اور مفید شہری بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ان ممالک کے تعمیراتی اور معاشی منصوبوں کا بغور جائزہ لیا جائے - جیسا کہ سعودی ویژن 2030، کویت ویژن 2035 اور عمان ویژن 2040 بیرون ملک ملازمت میں دلچسپی رکھنے والے کارکنوں کو ان منصوبوں کے لیے موزوں ہنر کی تربیت دی جائے۔ اس طرح عرب ممالک کی لیبر مارکیٹ میں پائی جانے والی مسابقت میں حصہ لینے کے قابل ہوسکیںگے۔ پاک فوج کے سعودی افواج اور اداروں کے ساتھ گہرے تاریخی تعلقات ہیں جنہیں مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ مشقوں اور تربیتی مشنوں سمیت کئی ایک میدانوں میں دفاعی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس طرح کی سرگرمیوں کو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک تعاون کے دائرے میں لانے اور مسلسل وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ سعودیوں اور امارتی حکام اور شہریوں کے اندر پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کو برقرار رکھنا اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر ان ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کا ہونا پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں ایسے اقدامات بھی کیے جانے ضروری ہیں جن سے پاکستان عرب ممالک کے لیے سرمایہ کاری کی ایک پرکشش منزل بن سکے اور اس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری قابل عمل اور منافع بخش ہو۔ پاکستان کو اپنے معاشی اور ادارتی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے جو عہد حاضر کے تقاضوں سے مطابق رکھتاہو۔ سعودی عرب 2019 میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتاتھا لیکن حکومت پاکستان اپنے روایتی اسٹائل اور فرسودہ قوانیں کی وجہ سے ضروری اصلاحات نہیں کرسکی ۔کہا جاتاہے کہ متعد دیگرد وجوہات کے علاوہ بڑے تجارتی لین دین میں پاکستان کی تکنیکی صلاحیت محدود ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان سعودی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو ہر سطح پر کمزور کیا۔ ہر حکومت کو دھڑکا لگا رہتاہے کہ وہ آج گئی کہ کل گئی۔ الیکشن کی شفافیت کو تسلیم نہیں کیاجاتا۔ پاکستان میںبنیادی نوعیت کی سیاسی اور ادارتی ریفارمز کی ضرورت ہے یا ایسا قومی ایجنڈاتشکیل دینے کی ضرورت ہے جو اگلے دوتین دھائیوں پر مشتمل معاشی اور سیاسی منصوبے پر قوم او رلیڈرشپ کو متفق کرسکے۔یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ مضبوط معیشت ہی ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کا جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ محض مذہبی، تاریخی اور سماجی رشتوں پر انحصارعصر ی حالات میں کافی نہیں۔دوسروں کو بے وفائی کا طعنہ دینے کے بجائے پاکستان کو اپنے پتہ مہارت سے کھیلنے ہوں گے۔ ان کمزوریوں کی اصلاح کرنا ہوگی جن کی بدولت آزمودہ دوست دور یا بدزن ہوئے۔