گو کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تہیہ کر لیاتھا کہ پی ٹی ائی کو اگلے الیکشن میں ووٹ نہیں دینا لیکن جب سے عمران حکومت ہٹی ہے خان کی مقبولیت رکنے کا نام نہیں لیتی۔ 11 اپریل اور 16 جولائی کے دوران ہر طرح کے لوگوں سے موجودہ سیاسی صورت حال پر بات ہوئی۔ کوشش ہوتی کہ لوگوں سے اس نام نہاد عدم اعتماد کی تحریک کے بارے جانا جائے اور جس طرح اس پورے عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا اس کی بابت لوگوں کا رد عمل معلوم کیا جائے ۔ پھل فروش ہو، ڈرائیور ہو، بیرہ ہو ، ڈاکٹر ہو، چپڑاسی ہو، پروفیسر ہو، وکیل ہو، بینکر ہو، دیہاتی ہو، کسان ہو، سٹیٹ ایجنٹ ہو یا گھر میں کام کرنے والے ملازم، کوئی نہیں ملا جس نے 11 اپریل کے عمل کو ملک کے ساتھ مذاق اور عمران خان کے ساتھ زیادتی سے تعبیر نہ کیا ہو۔ سب کے لبوں پر دو نام تھے، دو ادارے۔ ہر کوئی یہی کہتا سنا گیا کہ ان دونوں قوتوں نے پاکستان کو ایک بار پھر دو دہائی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ان سب کا ماننا تھا کہ جس طرح رات گئے عدم اعتماد کی تحریک کو یقینی بنایا گیا، جس طرح قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں وزیر اعظم ہاوس کے باہر پہنچائی گئیں۔ جس طرح رات گئے عدالتیں کھولی گئیں۔ جس طرح رات کی تاریکی میں عمران کو گھر بھیجا گیا، کسی ڈرامے کے سین سے کم نہ تھا۔ جسے پہلے ہی لکھا جا چکا تھا اور11 اپریل کے دن تو بس اسے ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ خواتین بھی اس عمل سے ناراض تھیں۔ رات ہونے کا انتظار کرتیں تاکہ عمران خان کے دھرنے میں جائیں۔ ہر روز لبرٹی مارکیٹ کے چوک میں میلہ لگا ہوتا۔ ایک نہیں کئی لوگوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حکومت میں آگئے تو ملک پچاس سال پیچھے چلا جائے گا۔ جب شہباز شریف نے پٹرول 18 روپے سستاکیا تو لوگوں کا رد عمل یہ تھا کہ پہلے قیمت بڑھا کر مافیاز کو نوازا اور اب ہمیں بیوقوف بنانے کے لیے تیل کی قیمت کم کی ہے۔ جب پوچھا کہ عمران خان نے بھی پٹرول اتنا ہی مہنگا کرنا تھا تو جواب ملا کہ وہ اسکی مجبوری ہوتی۔ ایک بار فیروز پور ر وڈ پر گاڑی روکی، بہت رش تھا۔ ایسے ہی ڈرائیور سے پوچھا کیا ہو سکتا ہے، کیوں ٹریفک جام ہے۔ اس نے حمزہ کو گالی دیتے ہوئے کہا:اس کے باپ کا ملک ہے اس لیے روٹ لگا ہے۔ اس نے پھر گالی دیتے ہوئے کہا کہ یہ چور کہاں سے آگئے ہیں۔ عمران خان کے بارے جب پوچھا کہ اس نے کونسے تیر چلا دیئے تھے۔ جواب ملا کہ جو بھی ہے عمران کی نہ تو جائیدادیں باہر ہیں، نہ وہ کرپٹ ہے اور اس کے دور حکومت میں کہیں بھی روٹ نہیں لگتے تھے۔ روٹ والی ٹریفک جام نے پرویز الٰہی کا دور حکومت یاد کرا دیا جب مشرف دور میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ گلبرگ اور جیل روڈ سے گزرنا کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ کونسی گھڑی نہیں تھی جب ان بادشاہوں کی سواری کو راستہ دینے کے لیے عوام کو چاہے سردی ہو یا گرمی گھنٹوں سڑک پر کھڑا رہنا پڑتا۔ چونکہ مشرف دور میں لوگوں کو سی این جی اور کنزیومر بینکنگ کی ایسی لت لگ گئی تھی کہ انہیں ہر طرف ہرا ہی نظر آتا تھا اس لیے چوں چرا کئے بغیر سب وقت گزار رہے تھے۔ پاکستان کو گیس کے بحران میں پرویز مشرف کی پالیسی نے دھکیلا۔ گلی گلی سی این جی سٹیشن بنائے گئے۔ گیس سٹیشن کے پرمٹ ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے۔ بے دریغ فرٹلائزر بنانے والی فیکٹریوں کو گیس فراہم کی گئی۔ یہاں تک کہ گیس کی قلت ہوتی گئی۔ سی این جی لینے والوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا۔ پھر جب ہمارے گیس کے سوتے سوکھ گئے اور نئی حکومتیں آئیں تو پالیسی کو قابو میں کیا گیا۔ آج حال یہ ہے کہ پاکستان کو سردیوں میں گیس نہیں ملتی اور گرمیوں میں بجلی نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو درآمد شدہ ایندھن کی وجہ سے انتہائی مہنگی۔ یہ تو ہوگیا عوام کا عمران خان کو نکالنے کے بعد کا رد عمل۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ عمران خان کا ووٹر عمران کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے حق میں نہیں تھا۔ ظاہر ہے کارکردگی۔ پی ٹی آئی نے معیشت کو مضبوط بنانے کے بہت سے منصوبے بنائے لیکن ظاہر ہے کوئی بھی منصوبہ تکمیل کے لیے وقت مانگتا ہے اور پھر چونکہ عمران بیساکھیوں پر کھڑا ہوا وزیر اعظم تھا اس نے اپنے تمام اصول پس پشت ڈال کر سمجھوتے کی سیاست کو اپنا لیا۔ پارلیمنٹ پر کنٹرول کسی اور کا تھا۔ پی ٹی آئی تو بس دھڑلے سے آرڈیننس پر آرڈیننس پاس کرتی گئی۔ مخالفین کے ساتھ مل کر سیاست چلانے کا ہنر چونکہ خان کے پاس نہیں اس لیے اس طرف بھی لچک پیدا کرنے کی کوشش کہیں اور ہی سے کی جاتی۔ خان کا سارا زور بس یہ ہی تھا کہ ایک تو عوام اسے سچا عاشق رسولﷺ مان لیں، دوسرا ن لیگ کو ہر فورم پر برہنہ کریں، تیسرا کسی طرح وہ دس سال کے لیے وزیر اعظم بن جائیں۔ سمجھوتے کی حکومت کو چلانے کے لیے خان نے بزدار جیسے کمزور شخص کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہی نہیں کی بلکہ اس حوالے سے قانون سازی کروائی اور پھر ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے کو روکنے پر اڑ گئے، آخر میں خان نے کرپشن زدہ سیاست دانوں کو سزا دلوانے کے بیانیے کو یکسر بھلا دیا۔ نیب پر بھی وہ ہی قوتیں حاوی ہو گئیں جواسمبلیوں،سینٹ اور اپوزیشن پر تھیں۔ گو عمران کو پنجاب نے دوبارہ جتوایا ہے لیکن پی ٹی آئی کو یہ ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ یہ ووٹ اسے کسی کے حب میں نہیں بلکہ بغض میں ملا ہے۔ اس بار اس عوامی احساس کی قدر نہ کی تو رت بدل بھی سکتی ہے اور اللہ کی سنت ہے کہ وہ غلطی پر اصرار کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا۔ ٭٭٭٭٭