عظیم روحانی پیشوا حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کاعرس مبارک ملتان میں نہایت عقیدت و احترام سے منایا گیا ۔ عرس کی تقریبات میں پورے وسیب سے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ ملتان کو مدینتہ الاولیاء ہونے کا شرف حاصل ہے ، کہا جاتا ہے کہ ملتان میں سوا لاکھ پیر آسودہ خاک ہیں ۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی ؒ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے روائتی خانقاہی نظام کے بر عکس حملہ آوروں سے باقاعدہ جنگ کی اور اپنی ماں دھرتی کا دفاع کیا۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کے شاگردوں اور مریدین میں بڑا حوالہ والئی ملتان مظفر خان شہید کا ہے۔ نواب مظفر خان اپنے استاد اور اپنے مرشد کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ نواب مظفر خان نے 2 جون 1818ء کو اپنی آل اولاد کی قربانی دیکر رسم شبیری ادا کی اور ملتان کا نام تاریخ انسانی میں سر بلند کر دیا۔ اٹھارہویں صدی میں جس شخص نے سلسلہ چشتیہ میں کام شروع کیا وہ نور محمد مہارویؒ تھے ۔ ایک عظیم المرتبت خلیفہ حافظ محمد جمال تھے ، آپ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے ، حضرت قبلہ عالم نور محمد مہارویؒ نے ان کو ملتان میں چشتیہ سلسلے کی ترویج اور تبلیغ کی غرض سے حضرت شاہ فخرصاحب کے اشارہ سے متعین کیا تھا۔ حضرت حافظ محمد جمال تقریباً 1160ھ میں ملتان میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد محترم اور دادا جان دونوں قرآن مجید کے حافظ تھے ، آپ کے والد محترم کا نام حافظ محمد یوسف اور جد امجد کا اسم گرامی حافظ عبدالرشید تھا ۔ آپ کی ذات اعوان تھی، تاریخ میں ان بزرگوں کے بارے میں بہت کم حالات ملتے ہیں۔حافظ صاحب کو ابتداء سے ہی پیر کامل کی تلاش کا بہت شوق تھا ، اسی تلاش میں حضرت شیخ رکن الدین ملتانیؒ کے مزار اقدس پر حاضر ہوئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے ۔ ہر رات ایک کلام پاک ختم کرتے تھے اور پیر کامل کیلئے دعا مانگتے اور سو جاتے ۔ ایک رات خواب میں اشارہ ملا کہ حضرت شیخ نور محمد مہاروی کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔ چنانچہ فوراً مہار شریف کی طرف روانہ ہو گئے اور قبلہ عالم کی خدمت میں حاضر ہو کر مرید ہونے کی درخواست کی۔ حافظ محمد جمال ملتانی کمال باطن ، تہذیب ، اخلاق و کمالات سے آراستہ تھے ۔ غریبوں کی دلجوئی کو اپنا فرض سمجھتے ۔ غریب اور امیر کوئی بھی ہو دعوت دے جاتا تو آپ غریب کے پاس پہلے جاتے تھے ۔ کبھی کھانے میں سے عیب نہ نکالتے بلکہ کوئی ایسی حرکت کرتا تو منع فرماتے۔ان کا دستور تھا کہ جس وقت تک سارے مریدین اور متعلقین کھانے سے فارغ نہ ہو جاتے کھانا تناول نہیں فرماتے تھے ۔ بچوں سے خوشی سے بات کرتے ۔ اگر کوئی بات ناگوار ہوتی تو منع نہیں کرتے تھے بلکہ تعریف اور تمثیل کے ساتھ سمجھاتے ۔ اپنے پیر بھائیوں کی امداد کیلئے ہر وقت تیار رہتے ۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی خدمت لینے سے زیادہ غریبوں مسکینوں کی خدمت کر کے زیادہ خوشی محسوس کرتے ۔ حافظ صاحب تیر اندازی میں کافی مہارت رکھتے تھے اور سکھاتے تھے۔ حضرت حافظ صاحب کی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ہوا کہ نواب مظفر خان کم عمری میں ہی امور مملکت کے رموز سے آشنا ہو گئے، چنانچہ ان کے والد نواب شجاع الدین خان نے محض 13 سال کی عمر میں ہی مظفر گڑھ کا علاقہ جہاں وقتاً فوقتاً سکھوں کے حملے ہوتے تھے نواب مظفر خان کے حوالے کیا ۔ نواب مظفر خان نے حملوں کے دفاع کیلئے سب سے پہلے خانگڑھ میں قلعہ تعمیر کرایا ۔ جو دفاعی نقطہ نظر کے علاوہ فن تعمیر کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ تھا ۔ اس دوران ملتان پر سکھوں نے قبضے کیلئے حملے تیز کر دیئے اور ملتان کا گھیرا تنگ کر دیا ۔ حملہ آور سکھوں سے جنگ کے مقدس مشن میں نواب شجاع خان اپنی علالت اور بڑھاپے کی وجہ سے حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کے پاس گوشہ نشین ہو گئے اور امور مملکت اپنے بڑے بیٹے نواب مظفر خان کے حوالے کر دیئے۔ 1777ء میں نواب شجاع الدین فوت ہو گئے جن کی وفات کے بعد تخت ملتان کی ذمہ داری نواب مظفر خان کے سر پر آ گئی۔ نواب شجاع خان کی وفات کے بعد سکھا فوج ملتان پر حملہ آور ہو گئی۔ ملتان میں داخل ہوتے ہی سکھ فوج قتل و غارت اور لوٹ مار شروع کر دی ۔ سینکڑوں مرد اور عورتوں کے ساتھ معصوم بچوں کو شہید کیا ۔شاہی خزانے سے اسلحہ، سونا ، چاندی ،نوادرات ، نقدی اور دوسرے مال و اسباب لوٹنے کے بعد سکھ فوج اسلامی مملکت ملتان کا نظام درہم برہم کر دیا ۔عالیشان عمارتیں مسمار کر دیں ، علمی مراکز اور لائبریریوں کو آگ لگا دی ، عبادت گاہوں کی بھی بے حرمتی کی، باغات اجاڑ دیئے، بربریت ، لوٹ مار کے بعد سکھ فوج واپس گئی تو 23 سال کے جوان نواب مظفر خان کو تباہ حال ملک سنبھالنے کیلئے کافی محنت کرنا پڑی ۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی دھرتی ،اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے بہت محبت کرتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے ملتان کے دفاع کیلئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ۔ حضرت حافظ صاحب فارسی ، عربی اور سرائیکی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔ چراغ نامہ ان کی مشہور سرائیکی سی حرفی کی کتاب ہے ۔اس کے علاوہ معلوم ہوا ہے جو حضرت علامہ طالوت مرحوم کے پاس حافظ صاحب کے قلمی دیوان کا نسخہ بھی موجود تھا ۔ جس میں حافظ صاحب کا عربی ،فارسی اور سرائیکی کلام موجود تھا ۔مگر افسوس کہ علامہ طالوت کی ذاتی لائبریری ان کی وفات کے بعد ناقدر لوگوں میں تقسیم ہو گئی اور اس قلمی نسخے کا کچھ پتہ نہ چلا ۔حافظ صاحب نے دو شادیاں کی مگر اولاد نہ ہوئی ۔ حافظ صاحب کا انتقال 5 جمادی الثانی 1224ھ میں تقریباً 66 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کا عرس مبارک 5 جمادی الثانی کو ہر سال ہوتا ہے اور کئی دن تک تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آپ کا مزار دولت گیٹ سے کچھ فاصلے پر محلہ حافظ جمال میں ہے۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی ؒ کا مزار ملتان میں مرجع خلائق ہے۔ وہ بہت بڑے مصلح ہونے کے ساتھ سرائیکی کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی سرائیکی ماں بولی کو اظہار کا وسلیہ بنایا، ان کا زیادہ کلام تو محفوظ نہیں ہو سکا البتہ ان کی سی حرفی جس میں الف سے ی تک ڈوہڑے ہیں میں سے پہلا ڈوہڑہ تبرک کیلئے حاضر ہے۔ الف اُٹھی مُکلا دھیا ہک پلک نہ جنبنْ ڈٖیندے ڈٖولی وچ گھت کوڑے تیکوں گھن سویلے ویندے چولی چُنیں ، بیور تریور ، ماء پیو ڈٖاج گھتیندے بھین بھرا تے خویش قبیلہ کھڑے جمال وداع کریندے