حضرت ابراہیم بن ادھم بلخیؒ عظیم المرتبت صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کو صوفیاء کے گروہ اوّل میں شمار کیا جاتا ہے جو 661ء سے 850ء تک بیان کیا گیا ہے ۔ اس دور کے عظیم صوفیاء میں حضرت اویس قرنی، حضرت حسن بصری، حضرت مالک بن دینار، حضرت محمد واسع، حضرت حبیب عجمی، حضرت فیصل بن عیاض اور ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادھم بلخی علیہ الرحمہ کا شجرہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب پانچ واسطوں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ تک پہنچاتا ہے ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ کی ولادت بلخ میں ہوئی۔ آپ کی کنیت ابو اسحاق تھی،بادشاہ بلخ نے آپ کو اپنا متنبیٰ ہونے کی وجہ سے ولی عہد بنا لیا تھا، بعد میں آپ بلخ کے بادشاہ ہو گئے ۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے ’’حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ شروع میں بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکمران تھے ۔‘‘حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ بلخی نیک سیرت اور خوبصورت تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور مخلوق کی خدمت آپ کی سیرت و کردار میں رچی بسی تھی۔ ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا۔ رات کو محل کی چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آئی، آپ نے باہر نکل کر پوچھا تم کو ن ہو اور کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ جواب آیا آپ کا شناسا ہوں، اونٹ گم ہو گئے ہیں، ان کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا محل کے چھت پر اونٹ تلاش کر رہے ہو، یہاں اونٹ کہاں سے آئے ؟ جواب ملا اگر چھت پر اونٹ نہیں مل سکتے تو خدا بھی تخت شاہی میں نہیں مل سکتا۔اس واقعہ نے پہلے ہی آپ کو اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ شاہی دربار لگا ہو اتھا کہ ایک شخص دربار میں داخل ہوا، آپ کے پاس پہنچا، آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا مسافر ہوں، سرائے تلاش کر رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ سرائے نہیں میرا محل ہے ۔ مسافرنے پوچھا پہلے یہاں کون رہتا تھا؟ آپ نے فرمایا بادشاہ۔ یہ سوال و جواب ہوتے رہے ، مسافر نے کہا پھر بتائیے یہ مسافرخانہ ہوا کہ نہیں۔ اس کی اس گفتگو سے آپ پر گہرا اثر ہوا۔ رات والا واقعہ بھی پیش نظر تھا۔ آپ نے شاہی لباس کو اُتار دیا، بادشاہی کو خیرباد کہا اور جنگل و صحرا کی راہ لی۔ پہاڑوں میں عبادت و ریاضت میں مصروف ہو گئے ۔ سخت مجاہدہ کیا، ہفتہ میں ایک دن جمعرات کو باہر آتے ۔ لکڑیاں اکٹھا کرکے فروخت کرتے ۔ ہفتہ بھر کا گزراوقات ہو جاتا۔ باقی رقم خیرات کر دیتے ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ ایک زمانہ تک اسی مجاہدات میں مشغول رہے ۔ پھر غیبی اشارہ پاکر بیت اللہ شریف کی زیارت کو مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور حضرت فیضل بن عیاض علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر بیعت فرمانے کے بعد کمالات حاصل کیے ۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار نے لکھا ہے کہ آپ کو متعدد بار حضرت خضر علیہ السلام سے شرف ملاقات اور فیض حاصل ہوا۔ صحرائی سفر میں آپ کو اسم اعظم کی تعلیم دی گئی۔ آپ ہمیشہ اس اسم اعظم کے ذریعہ اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ کو جب لوگوں نے پہچان لیا تو آپ غاروں سے باہر آئے اور بیت اللہ شریف کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ عبادت و ریاضت میں گریہ و زاری میں چالیس برس لگا دئیے ، پھر مکہ مکرمہ پہنچے ۔ جب اہل حرم کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ استقبال کے لئے نکلے ۔ آپ پہلے ہی قافلہ سے جدا ہو کر الگ ہو گئے تھے تاکہ کوئی شناخت نہ کر سکے ۔ جب خدام اہل حرم نے آپ سے دریافت کیا کہ ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ کتنی دور ہیں، اس لئے کہ اہل حرم ان سے نیاز حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ ایک ملحد اور دہریہ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی خدام نے آپ کے منہ پر تھپڑ مارے اور کہا کہ ملحد اور دہریہ تم خود ہو۔ آپ نے فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں۔ جب وہ لوگ آگے نکل گئے تو آپ نے اپنے نفس سے فرمایا کہ اپنے کرتوت کی سزا بھگت لی۔ کیونکہ خدا کا شکر ہے کہ اہل حرم کے استقبال کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور اس کے بعد جب لوگوں نے آپ کو شناخت کر لیا تو اس قدر عقیدت مند ہو گئے کہ آپ نے بھی وہیں سکونت اختیار کر لی۔ بے شمار افراد آپ کے ہاتھوں پر بیعت ہوئے اور آپ کی یہ حالت تھی کہ حصول رزق کے لئے بڑی مشقت کے ساتھ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے اور کبھی کسی کے کھیت پر رکھوالی کا کام کرتے ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم بلخی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’جس کو تین حالتوں میں دلجمعی حاصل نہ ہو تو سمجھ کہ اس کے اوپر باب رحمت بند ہو چکا ہے ۔ اوّل تلاوت کلام کے وقت، دوم حالت نماز میں، سوم ذکر و شغل عبادت کے وقت اور عارف کی شناخت یہی ہے کہ وہ ہر شئے میں حصول عبرت سے زیادہ وقت گزارے ‘‘۔ آپ کی پرہیزگاری میں بہت منزلت تھی۔ آپ نے فرمایا پاک روزی رکھو، اگر تم دن کو نہ روزہ رکھو اورات کو قیام نہ بھی کر سکو تو اس میں اتنا نقصان نہیں جتنا نقصان ناپاک روزی کھانے میں ہے ۔ آپ اکثر دُعا فرمایا کرتے تھے خدایا! مجھے اپنی نافرمانی کی ذلت سے نکال کر اپنی تابعداری کی عزت کی طرف منتقل کر دئیے ۔ ایک مرتبہ لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جب ہم دُعا مانگتے ہیں تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ فرمایا تم اللہ کو جانتے ہو، مگر اُس کی بندگی نہیں کرتے ۔ اُس کے رسول اور قرآن کو پہچانتے ہو مگر اطاعت نہیں کرتے ۔ اس کی نعمتیں کھاتے ہو مگر شکر نہیں کرتے اور جنت کے ملنے کا اور دوزخ سے بچنے کا سامان نہیں کرتے ۔ شیطان کودشمن جانتے ہو مگر اس سے عداوت نہیں کرتے اور جانتے ہو کہ موت آنے والی ہے مگر اس کی فکر نہیں کرتے ۔ ماں باپ کو قبر میں دفن کرتے ہو مگر عبرت حاصل نہیں کرتے اور جانتے ہو کہ ہمارے عیب موجود ہیں پھر بھی دوسروں کے عیب تلاش کرتے ہیں، بھلا ایسی صورت میں دُعا کہاں قبول ہوسکتی ہے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا والوں نے دنیا میں راحت ڈھونڈی، مگر انہیں راحت نہیں ملی۔ اگر انہیں اس سلطنت و حکومت کی خبر ہو جائے جو ہمارے قبضہ میں ہے تواس کے حاصل کرنے کے لئے تلواروں سے لڑیں۔ علامہ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق آپ کا وصال 162 ہجری میں 102 سال کی عمر میں ملک شام میں ہوا۔ آپ کا مزار شام میں ہے ۔ بعض کے نزدیک آپ کا مزار بغداد میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مرقد پر رحمتوں کا نزول فرمائے ۔ امین بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مآخد:تذکرۃ الاولیائ،تاریخ مشائخ چشت