سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے سبب دنیا میں غربت بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اس انداز سے پیداواری نظام کو ترتیب دیا ہے کہ کارل مارکس کا نظریہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی درست معلوم ہوتا ہے۔ امیرو ں کی تجوریوں میں دولت کے انبار بڑھتے جارہے ہیں جبکہ غریب کا چولہا بجھنا شروع ہوگیا ہے۔صف ِ اول کے ممالک نے جہاں خود کو ہر طرح کے سہولیات سے آراستہ کیا ہے وہیں دنیا کے وسائل پر قبضہ جما لیا ہے۔ یورپ نے کمال منافقانہ طرز ِ عمل اپنایا ہے۔ یورپی میڈیا کے مطابق یورپ کے مسائل دنیا کے مسائل ہیں جبکہ یورپ کے وسائل صرف یورپ کے وسائل ہیں۔ دوسری جانب آبادی میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک مہیا کرنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک نے فصلوں کی مخلوط کاشت کا ری کا طریقہ اپنا یا ہے۔مثلاََ چین نے بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور بھوک کے پیش نظر فصلوں کی مخلوط کاشت کاری پر جنگی بنیادوں پر کام کیا ہے۔ چین نے حال ہی میں ایگرو فاریسٹری کی ٹیکنالوجی کو متعارف کراکے پھلوں کی پیداوار کوبڑھا لیا ہے۔ چین کے جنوب مغربی صوبے نے سیب لگا کر اپنے آٹھ کروڑ لوگوں کی بے روزگاری ختم کردی ہے اور لوگ غربت سے خوشحالی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔چین کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بھی اس ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر استعمال کریں اور اپنی فصلوں اورپھل دار پودوں کو ایک ساتھ کاشت کرسکیں؟ اس مخلوط طریقہ ِ پیداوار سے پھلوں کی اور فصلوں کی پیداوار کم نہیں ہوگی۔ فی پودے سے چالیس سے پچاس کلوگرام پھل لیے جاسکیں گے۔فصلوں او ر پھلوں کو اس طرح کاشت کیا جائے گا کہ دونوں ایک دوسرے کی معاونت فراہم کریں گے۔ہمارے ملک کی کچھ جامعات گزشتہ چند سال سے مخلوط فصلوں کی کاشت کاری پر کام کررہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پورے ملک میں 406ارب روپے مالیت کی سویابین دوسرے ملکوں سے منگوائی جارہی ہے، ہمارے ملک میں کسان کو ایک ایکڑ سے 85سے 90من مکئی اور سات سے بارہ من سویابین کی پیداوار آرہی ہے۔ سویابین کا ایک من اس وقت نو ہزار میں بک رہا ہے۔ جس زمین میں سویابین کاشت ہوتی ہے یہ اْس کے نائٹروجن کی مقدارکو بڑھاتی ہے کیونکہ سویابین کی جڑیں مٹی میں ایک خاص قسم کا تیزاب چھوڑتی ہیں اور وہ تیزاب زمین میں فاسفورس کی موجودگی کو بڑھاتا ہے۔ سویابین کی کاشت زمین کو نرم کرتی ہے۔ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں 35لاکھ ایکڑ پر صرف مکئی کی فصل کاشت ہوتی ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت توجہ دیں تو مکئی اور سویابین کی فصلوں کی کاشت وسیع پیمانے پر ہوسکتی ہے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہمار ے ملک میں سویابین کی پیداوار شروع ہوجائے گی اور ہمارا سالانہ 406ارب روپے بچ جائیں گے جبکہ ساتھ ہی ساتھ 100ارب روپے کا مزید اضافہ ہوگا۔ مخلوط فصلوں کی پیداوار کو بڑھانے اور نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے میں ڈاکٹر علی رضا نے بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے۔ جب اْن کی پی ایچ ڈی ختم ہوئی تو انہیں امریکہ سے ملازمت کی آفر ہوئی۔ ڈاکٹر علی نے پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی رہنمائی میں مخلوط فصلوں کی پیداوار میں ترقیاتی ماڈل کو متعارف کرانا اور اسے کامیابی سے چلانا اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ سابق وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین پاکستان تحریک ِ انصاف نے جب یونیورسٹی کا دورہ کیا تو انہوں نے ڈاکٹر علی کی لگن کو دیکھتے ہوئے تعریفی شیلڈ دی اور کہا ’’نوجوان علی جو چین سے پی ایچ ڈی کرکے آیا ہے یہ ہے پاکستان کا مستقبل‘‘۔اسی یونیورسٹی نے 2021ء میں نیشنل ریسرچ سنٹر آف انٹر کراپنگ قائم کیا جس کا مقصد کم سے کم زمین، کم کھاد، کم سپرے سے زیادہ فصلوں کی مقدار اْگانا ہے۔ اس سنٹر نے پہلی بار انٹر کراپنگ سپیسفک پلانٹر بنایا ہے جو ایک ہی وقت میں دو یا دو سے زیادہ فصلیں کاشت کرسکتا ہے۔ مکئی، سویابین کی مختلف اقسام اورسرسوں کی انٹر کراپنگ سپیسفک کے لئے چین کی مختلف جامعات کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں۔ اس سنٹرکی وجہ سے چین کی سچو آن ایگر ی کلچر یونیورسٹی اب تک 45بچوں کو بیس کروڑ روپے کے سکالرشپ دے چکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں کل 81ملین ایکڑرقبے پر فصلیں کاشت کی جارہی ہیں۔ یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہمارا چولستان اکیلا دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے، جس کی زمین 66لاکھ ایکڑ ہے۔رواں سال بارشوں کے نہ ہونے سے چولستان نے ایک بار پھر بدترین قحط کو برداشت کیا ہے۔ مویشیوں کے ساتھ ساتھ انسانی آبادی کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس سنٹر نے مصنوعی بارش کے پروجیکٹ پر کام شروع کیا ہے۔اگر یہ منصوبہ چل پڑا تو مصنوعی بارشیں چولستان میں ایک بار پھر ہریالی لائیں گی۔ ان بارشوں کی وجہ سے ایک طرف تو گرم و مرطوب موسم کا درجہ حرارت کم ہوگا، بارشیں بڑھ جائیں گی تو آلودگی میں کمی آئے گی، فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہو گا،مویشیوں کی افزائش ِ نسل میں بہتری آئے گی، زمنی پانی اوپر آئے گا، اگر یہ علاقہ آباد ہوتا ہے تو پانچ لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہونگی، گندم کی درآمدات ختم ہوجائیں گی۔ کپاس کی درآمدات میں تیرہ فیصد کمی، تیل والی فصلوں میں سات فیصدکمی واقع ہوگئی جبکہ بائیو ڈائیورسٹی بہت زیادہ بڑھے گی، پاکستان کی معیشت میں چھ سے سات ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ حیران کن طور پر یہ آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔اگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں معاونت کرتی ہیں تو پاکستا ن کی زراعت میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ حیران کن طور پر مخلوط فصلوں کی کاشت کے منصوبہ کی تفصیلی بریفنگ اب تک گورنر پنجاب، وزیر خزانہ پنجاب، وزیر ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب، وزیراطلات پنجاب، آئی جی پنجاب، کور کمانڈر بہاولپور، جی او سی، سیکرٹری ایگری کلچر پنجاب، سیکرٹری ماحولیات، سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کو دی جاچکی ہیں اور سبھی حکام اس منصوبہ سے کلی طور پر متفق ہوئے ہیں کہ یہ ایک زبردست منصوبہ ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے، لیکن یہ منصوبہ تاحال عملی طورپر حکومتی سرپرستی کا خواہاں ہے۔ کاش ہماری حکومتیں صحیح معنوں میں عوامی مسائل کے حل اور قومی ترقی کے لئے سنجیدہ ہوں تو ہم اپنی قسمت کے ساتھ ساتھ دنیا کی قسمت بدل سکتے ہیں۔