میں حد سے ہوں آگے تو وہ امکان سے آگے آنکھوں میں ہے لیکن میری پہچان سے آگے سوچوں میں بھی گونجے ہے خیالوں میں بھی روشن خوشبو سی ہے لیکن کسی گلدان سے آگے میں نے بات اپنے خالق و مالک کے تذکرے سے شروع کی کہ دل کہتا ہے مانگ اور بصیرت کہ ہوہیجان سے آگے ۔ محرم اسلامی سال ہجری کا آغاز ہے اس آغاز میں حزن وملال بھی ہے وہی جو ہمارے دوست سجاد بلوچ کہا ہے کہ: افق پہ چاند محرم کا پھر طلوع ہوا اور اک لکیر پڑی دل کے آبگینے میں یقینا اب دس محرم تک ذکر حسینؓ چلے گا یکم محرم کی مناسبت سے آج مجھے ایک تقریب کا حال لکھنا ہے کہ کل عمر فاروقؓ کا یوم شہادت بھی تھا۔ ہمارے ایک نہایت پیارے دوست اور درس قرآن کے ساتھی میاں مقبول صاحب نے اپنے گھر پر ایک ناشتے کا اہتمام کیا ۔میرے لئے انتہائی خوشی کا باعث مولانا امجد صاحب کا وہاں آنا تھا۔مولانا امجد صاحب سے دوستوں نے تلاوت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے سماں باندھ دیا اور پھر کچھ گفتگو یکم محرم کے حوالے سے بات کی اور خصوصاً حضرت عمرؓ کی سیرت بیان کی فرمایا کہ حضرت عمرؓ کی ہستی وہ ہے کہ جب آپ مسلمان ہوئے تو پھر بہت کچھ بدل گیا کہ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ عمر مسلمان ہو جائے اور چھپ کر نماز ادا کی جائے گویا انہی کے باعث نعرہ تکبیر پہلی مرتبہ بلند ہوا پھر خانہ کعبہ میں نماز ادا کی گئی تو حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہ نے تلوار کے ساتھ پہرہ دیا۔مولانا امجد نے حضرت عمرؓ کی سیرت سے کچھ واقعات بھی بیان کئے۔ ہمارے حکمران تو صرف ان کے حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں اور ان کی عملی زندگی کی یکسر الٹ ہے گویا وہ سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔حضرت عمرؓ تو راتوں کو باہر نکل کر گلی محلوں میں حال معلوم کرنے کے لئے گھومتے۔ایک گھر کے قریب سے گزرے تو اندر سے جھگڑنے کی آواز آئی آپ غیر ارادی طور پر رک گئے سنا تو اندر سے ماں اپنی بیٹی کو کہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ڈال دو۔ بیٹی نے کہا ماں خلیفہ عمرؓ نے ملاوٹ سے روک رکھا ہے ۔ماں نے کہا خلیفہ کوئی یہاں تمہیں دیکھ رہا ہے؟ ۔بیٹی نے کہا ماں عمرؓ نہیں دیکھ رہا مگر اس کا رب تو دیکھ رہا ہے۔حضرت عمرؓ نے اس گھر کے دروازے پر نشان لگا دیا اور صبح اس بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے کے لئے مانگنے اس گھر پر پہنچ گئے۔ تاریخ میں کون ایسا ملے گا کہ حاکم وقت ہو اور اس سے ایک شخص اٹھ کر کہے کہ آپ کے پاس اتنا کپڑا کہاں سے آ گیا کہ آپ اپنا پورا لباس بنا لیں۔ مسلمانوں کے لئے فخر کی بات ہے کہ یورپ میں باقاعدہ عمر لاء پڑھایا جاتا ہے۔ان کے دور کو انصاف کے حوالے سے آئیڈیل دور کہا جاتا ہے وہ واقعہ آپ کو معلوم ہو گا کہ جب ایک یہودی اور ایک منافق جو بظاہر مسلمان تھا اپنا مقدمہ لے کر آیا تو حضور اکرم ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا تو وہ بظاہر مسلمان یہ مقدمہ حضرت عمرؓ کے پاس لے گیا اور یہودی نے سردست بتایا کہ حضور اکرم ﷺ نے تو میرے حق میں فیصلے دے دیا ہے حضرت عمرؓ یہ سن کر اندر گئے اور تلوار میان سے نکالی اور تلوار لہراتے ہوئے کہا وہ جسے حضور اکرم ﷺ کا فیصلہ منظور نہیں وہ زندہ کیسے ہے۔منافقین نے شور مچا دیا اور قصاص کا مطالبہ کیا۔یہاں قرآن کی آیت نازل ہو گئی کہ حضورؐ کا فیصلہ ماننا لازمی ہے وہ مسلمان تھا ہی نہیں اس طرح حضرت عمرؓ پر قصاص نہیں پڑا۔بے شمار واقعات ہیں مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم ان کی سیرت سے سیکھیں صرف بیان کرنے پر زور نہ دیں۔ مولانا احمد نے اس حوالے سے ہی ایک شاندار واقعہ بیان کیا کہ صحابہ ایک دوسرے سے نیکی میں سبقت لے جانے پر زور دیتے تھے ظاہر وہ ماحول ہی اور تھا اور تربیت حضورؐ کی تھی حضرت عمرؓ نے سوچا کہ حضرت ابوبکرؓ ہر معاملے میں ان سے آگے رہتے ہیں ایک نابینا بوڑھی عورت کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت عمرؓ کو پتہ چلا کہ کوئی شخص ان کے گھر کے کام کر جاتا ہے۔کھانا کھلا جاتا ہے۔حضرت عمرؓ ایک روز ذرا جلدی جلدی بوڑھی اماں کے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ شخص جھاڑو دے کر اب پانی لینے گیا ہے اتنی دیر میں حضرت عمرﷺ کو وہ شخص نظر آیا جس نے منہ پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا حضرت عمرؓ نے اسے پکڑ کر کپڑا ہٹایا تو پائوں تلے سے زمین نکل گئی وہ حضرت ابوبکرؓ تھے پھر حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد جب حضرت عمرؓ اس بوڑھی اماں کی خدمت میں کھانا لے کر گئے اور اس کے منہ میں لقمہ ڈالا تو وہ کہنے لگی کیا خلیفہ بدل گیا ہے۔حضرت عمرؓ نے حیرت سے پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہوا بوڑھی عورت نے کہا کہ وہ تو مجھے لمقہ چبا کر دکھلاتا تھا۔ یقینا یہ باتیں ہمیں بالکل خواب سی لگتی ہیں کہ یہ کیسے لوگ تھے اب تو لوگ کسی کے منہ سے لقمہ چھین لیتے ہیں اس طرح کا کام تو کوئی شاید سوچ بھی نہیں سکتا۔لیکن آخر میں یہ بات میں بتا دوں کہ یہ سوچ ممکن ہے آپ قرآن کے ساتھ جڑ کر دیکھیں۔قرآن کو سمجھ کر دیکھیں قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ وہ لوگ بھی مجرم ہیں جو مسکین کو کھانا تک کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے اور اس پر اللہ بار بار زور دیتا ہے کہ اس کے دیے ہوئے میں سے تم خرچ کرو مگر کیا کریں شور باہر کا کم نہیں ہوتا بات اندر کی کیا سنائی دے۔اچھی بات اندر بھی تو نہیں جاتی وہ لوگ دیانتدار تھے ۔بس یہی التماس ہے کہ قرآن کے ساتھ رجوع کریں کہ گر سکھاتا ہے بادشاہی کے۔ایک مرتبہ پھر ملک مقبول صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے نہایت پاکیزہ مقصد کے لئے ایک اکٹھ کیا ایک شعر ہاشمی علی خاں ہمدم کا: یہ دل کا راستہ ہے محبت کا راستہ اس رہگزر پہ خود کو چلانا صحیح صحیح