جنت البقیع اور جنت المعلٰی کے انہدام اوربالخصوص حضرت سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے مزارِ اقدس کے منہدم ہونے کے زخم ابھی تک اُمّت کے قلب وذہن میں تازہ ہیں،اور اس وقت تک تازہ رہیں گے ،جب تک ان کا ازالہ اور کفارہ ادا نہیں ہوتا ، حال ہی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکے مزارِ اقدس کی بیحرمتی کی المناک خبر سے پوری اُمت مضطرب اور بے چین ہو گئی ہے ، جوکہ ایک فطری امر ہے ، اس لیے کہ آپ ؒ پہلی صدی ہجری کی آخری دہائیوں کے پُر اشوب حالات میں "خلافتِ راشدہ"کی اقدار کو از سرِ نو تابندہ اور تاباں کرنے والے خلیفہ تھے ۔آپؒ کی شخصیت ، اسلوب حیات اور طرزِ حکمرانی ، تاریخ اسلام میں ایک منفر د مقام کی حامل ہوئی،آپ کا عہد عدل گستری ،انصاف پسندی ، سادگی ،نیکی اور تقویٰ وطہارت میں معروف اور معتبر تھا ۔ آپؒ کی ولادت 61 ھ /681ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی ، آپ کے والد عبدالعزیز بن مروان ،جوکہ مصر کے گورنر تھے ، نے آپ کو بہتر تعلیم وتربیت کے لیے "مدینۃ الرسول "میں رکھا ۔اپنے والد کی وفات85ھ /704ء تک آپ وہیں مقیم رہے ،ازاں بعد آپ کے چچا عبدالملک ،آپ کو اپنے پاس دمشق لے آئے اور اپنی بیٹی فاطمہ سے آپ کی شادی کردی ۔87ھ میں خلیفہ ولید بن عبدالملک ،جوکہ آپ کے برادرِ نسبتی بھی تھے ،نے آپ کو حجازِ مقدس کا گورنر مقرر کردیا ۔ یوں انہیں مدینہ رسول میں دوبارہ رہنے کی سعادت میسر آگئی ۔ اپنے اس قیام کے دوران انہوں نے اپنے طرزِ حکومت کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے کی کوشش کی ، آپ نے مدینہ منورہ کے ممتاز اہل علم پر مشتمل ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی ،جن کو یہ اختیار سونپا گیا کہ وہ امورِ سلطنت کو اسلامی خطوط کے مطابق مرتب کرنے کے عمل کی نگرانی کریں ،نیز ماتحت عمّال کے بے جا تصرفات اور ان کے ظلم وزیادتیوں سے سوسائٹی کو محفوظ رکھنے اور ، عام شہری کی ویلفیئر کا اہتمام کریں ، مزیدیہ کہ گذشتہ عرصے میں مختلف قبیح رسوم اوربے جا جبر کا بھی خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ علامہ عبد الرحمن ابن جوزی اپنی تصنیف "سیرت ابن جوزی"اور علامہ جلال الدین السیوطی نے "تاریخ الخلفائ"میں لکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے وصال سے قبل ،اپنے ایک مصاحب (ابو اُمیہ ) کو کچھ دینار دیئے اور فرمایا :جائو! گائوں کے لوگوں سے میری قبر کی زمین خرید لو ،اگر وہ انکار کریں تو اصرار نہ کرنا بلکہ خاموشی سے واپس آجانا ،ابو اُمیہ کہتے ہیں میں اہل دیہہ کے پاس پہنچا قبر کے لیے زمین خرید کرنے کا معاملہ ان کے سامنے رکھا ،انہوں نے کہا :واللہ ! اگرہمیں تمہارے واپس لَوٹ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا ،تو ہم یہ دینار تم سے قبول نہ کرتے ۔ آپ کی قبر کے لیے یہ جگہ دس دینار اور ایک روایت کے مطابق بیس دینار میں ،حمص کے قریب ایک مقام "دِیر سمعان"میں خرید ہوئی ، جہاں آپ ماہ رجب المرجب 101ھ میں صرف 40سال کی عمر ، میں 2سال 5ماہ اور4دن کے تاریخ ساز عہدِ خلافت کے بعد ،دفن ہوے ۔ طبقات ابن سعد کے مطابق بوقتِ تدفین چند موئے مبارک اور ناخن بطورِتبرک کفن میں رکھے گئے ۔آپؒ کو بنو اُمیہ کے اُس ظالم طبقے ،جس نے مسلمانوں کی جائیدادوں اور دیگر وسائل پر ناجائز قبضہ کررکھا تھا، نے آپ کے خادم کے ذریعے ،ایک ہزار دینار کا لالچ دیکر زہر دلوایا ، مرض الموت میں لوگوں کا خیال تھا کہ آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے ، آپ نے فرمایا مجھ پر جادو نہیںہوا، بلکہ زہر دیئے جانے کی تفصیل از خود بیان فرمائی ، پھر اس غلام کو بلوایا ،اس نے اقرار کیا ،آپ ؒ نے ایک ہزار دینار اس سے لیکر ،بیت المال میں جمع کروادیئے اور اُسے حکم دیاکہ : تم ایسی جگہ چلے جائو ،جہاں تم تک کوئی نہ پہنچ سکے ۔ علاج کے لیے طبیب کو اجازت نہ دی ۔ فرمایا ، اگر مجھے علم ہو کہ اپنا ہاتھ کان کی لَو کو لگانے سے مجھے شفا مل جائیگی ،تومیں اس پر بھی رضامند نہ ہوںگا ۔اپنے برادرِ نسبتی کوکفن کے لیے دو درہم دیئے ،اس نے عرض کی : اے امیر المؤمنین !"آپ جیسی شخصیت کو دو دینار کا کفن ۔؟"آپ نے فرمایا ـ:اگر اللہ مجھ سے راضی ہوگیا تو یہ کم قیمت کفن ہی میرے لیے بہتر ہو جا ئیگا ، اور اگر راضی نہ ہوا ، تو یہ آگ کا ایندھن بن جائیگا ۔ بوقت وصال اپنے بیٹوںکو فرمایا!" میرے پاس دو راستے تھے ،تم کو مالدار چھوڑتا اور خود جہنم کاایندھن بن جاتا ، یا تم رزق حلال کے خوگر بنتے اور جنت کی دائمی نعمتوں کوہمیشہ کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیتے ،میں نے دوسرا راستہ اختیار کیاہے ۔" آپ کا کل ترکہ17دینار تھا ،تجہیزو تکفین کے بعد ، ہربیٹے کے حصے میں 19درہم آئے ،اموری خلیفہ ہشام بن عبد الملک بھی 11بیٹے چھوڑ کر مرا ،اُس کے ہر ایک کے حصے میں دس ،دس لاکھ ترکہ آیا ،لیکن ہشام کے بیٹوں کو لوگوں نے صدقہ لیتے ،اور عمر بن عبدالعزیز کے بیٹوں کو ایک وقت میں سو سو گھوڑے جہاد کے لیے پیش کرتے دیکھا ۔اپنے ایک گورنر کومکتوب تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ اپنے کسی قول وفعل سے ایسی دنیا کو طلب نہ کرو، جس سے تمہاری آخرت ضائع ہوجائے اور اس کی وجہ سے تمہارا رب تجھ سے ناراض ہو جائے ،اس بات پر یقین رکھو کہ تمہارا رزق تمہیں تمہاری دنیا سے تمہارا پورا پورا حصہ دے گا، جس میں تمہاری قوت کی وجہ سے نہ تو زیادتی ہوگی اور نہ ہی کمزوری کی وجہ سے کچھ کمی ۔اگر اللہ تمہیں فقرمیں مبتلا کردے تو اپنی تنگدستی میں اپنی پاکیزگی اور عفت کا خیال رکھنا ، اپنے رب کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خَم کردینا ۔اللہ نے تمہیں اسلام جیسی جو عظیم نعمت عطاکی ہے ،اسی کو غنیمت جاننا۔ شام کے علاقے میں مٹی کے بنے ہوئے ایک منبر پر خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو تین نصیحتیں کیں ۔ i۔اے لوگو! تم اپنے باطن کی اصلاح کر لو، تمہارے ظاہر کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی ۔ ii۔تم اپنی آخرت کے لیے کام کرو ،تمہاری دنیا کی بہتری کا اہتما م خود بخود ہو جائے گا۔ iii۔ہر وہ شخص ،جو آدم کی اولاد ہے ،جان لے ،جو بھی دنیا میں آیا ہے، اُسے موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے۔ ابو حازم کہتے ہیں ،عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ بن گئے، تو ان کی ملاقات کے لیے گیا ، آ پ لوگوں کے مجمع میں تھے ،میں انہیں پہچان نہ سکا ۔انہوں نے مجھے پہچان کر آواز دی ، میںنے عرض کی مدینہ منورہ میں ، آپ کا حُسن وجمال ، کروفر ، جاہ وجلال خوب تھا ،آپ کے ارد گرد خدّام وحشم کا حلقہ ہوتا، عمدہ سواریا ں ،بہترین لباس ---اب اِس حال میںآپ کس طرح پہنچے۔؟ فرمایا اے ابو حازم ! مجھے اس خلافت کی آزمائش میں مبتلا کردیا گیا ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ میں ا س سے کس طرح سرخرو ہو ں گا ۔آپ نے کہا میں نے یہ حدیث شریف سنی ہے کہ تمہارے سامنے دشوا ر گزار گھاٹی ہے، جس سے صرف کمزور اور نحیف لوگ ہی گذر سکیں گے ، اور پھر آہوں ،آنسوئوں اور سسکیوں میں فرمایا ،اب میرے لیے اسی میں بہتری ہے کہ خود کو کمزور اور نحیف بنالوں تاکہ اس ہولناک وادی سے گزر سکوں ،جس میں اس خلافت کی ذمہ داری کے سبب مبتلا کر دیا گیا ہوں ۔