’’ہندوستانی مسلمانوںکا صفایا کیسے کیا جائے‘‘ یہ ہفت روزہ دلت وائس بنگلور21مئی1999ء کے اداریے کا عنوان تھا جو اس کے ایڈیٹر وی ٹی راج شیکھرنے لکھا تھا ۔دلتوں سمیت محروم و مقہور ہندستانیوں کی طاقت ور آواز شمار کیا جانے والا یہ ہفت روزہ میگزین 2011ء میں بند ہو چکا ہے مگر وی ٹی راج شیکھر ابھی بقید حیات ہیں ۔بیس برس قبل دلت صحافی وی ٹی راج شیکھرلکھتے ہیںکہ’’مسلمانوں نے اندلس موجودہ( اسپین)میں712عیسوی سے1492ء تک سات سو اسی برس حکمرانی کی ۔اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمان نہیں ہیں ۔تاہم اسپینی زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی چھاپ صاف نظر آتی ہے ۔اسپینی زبان میں عربی کے متعدد الفاظ رائج ہیں ۔اس کی موسیقی میں عربی کی جھلک ہے ۔اس کی تہذیب و ثقافت پر یورپ سے زیادہ عرب اثرات ہیں ۔اسپینی ناموں میں عربی لاحقہ بکثرت ملتا ہے ۔فروری 1492ء میں جب مسلم سیاسی قوت کے آخری گڑھ گریناڈا’’قرطبہ ‘‘کا سقوط ہوا، مسلمانوں کی تعداد اسپین سے مسلسل کم ہوتی چلی گئی اور ایک سو بیس برس بعد اس وقت اسپین سے ان کا صفایا ہوگیا ،جب 1612ء میں مسلمانوں کے آخری جتھے نے بھی ہسپانیہ کو خیر باد کہہ دیا ۔ اس طرح سولہ سو بارہ عیسوی میں اسپین سے اہل اسلام پوری طرح اوجھل ہوگیا لیکن ایک خاص قابل توجہ اور حیران کن بات یہ ہے کہ اسپین سے اسلام کی زوال پذیری کی اس مدت کے دوران کم و بیش پوری باقی ماندہ مہذب دنیا پر مسلمانوں ہی کی حکمرانی تھی ۔ عثمانی ترکوں نے 1553ء میں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا تھا اور وہ مشرقی یورپ کے پورے جزیرہ نمائے بلقان’’بوسنیا البانیہ اور یوگوسلاویہ وغیرہ‘‘ پر حکومت کر رہے تھے ۔مصر پرمسلمانوں کے طاقت ور غلام خاندان کے بادشاہوں کی حکومت تھی ۔ایران عباسی حکمرانوں کے زیر نگیں اپنے سیاسی عروج پر تھا اور ہندستان پر مغلوں کی بادشاہت قائم تھی لیکن حیرت انگیز طور پر اسپین سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیااور ان عظیم مسلم افواج میں سے کسی ایک نے بھی ہسپانوی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا ۔یاد رہے کہ اسپین سے مسلمانوں کے اخراج کا موضوع آج سے کئی دہائی سے ہی بھارت کے ہندو فرقہ پرستوں کے بی جے پی ،آرایس ایس اوروی ایچ پی یعنی ویشواہندوپریشدکے عمیق مطالعے کا مرکز رہا ہے ۔وہ اسی وقت سے ہندوستان میں اسپین کے منظر نامے کو دہرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ان دونوں تنظیموں میں یہ طے پاچکاہے کہ ہندوذات کے اونچے طبقوں کے لیے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے طور پر یہ مسلمان ایک بڑا سر درد بن چکے ہیںجو 1981ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا 11.3 فی صد ہیںلیکن المیہ یہ ہے کہ عصر حاضر کے مسلمان اسپین میں اسلام اور مسلمانوں کے زوال کی تاریخ اور ہندستان میں ان کے ارد گرد رچائی جانے والی گہری سازشوں سے پوری طرح ناواقف ہیں ۔‘‘نوٹ چونکہ یہ مضمون 1999ء میں لکھاگیااس وجہ سے مردم شماری کی اس وقت کی تازہ تاریخ ڈالی گئی ہے ۔‘‘ ہندوستان کے بے چارے مسلمان آج اسی طرح منقسم اورتقسیم درتقسیم ہیں کہ جس طرح اسپین میں بھی مسلمان تین طبقوں میں منقسم تھے ۔اولاََاصل عربوں کی نسل ثانیاََعرب مردوں اور اسپینی مائوں کی اولاد پر مشتمل نسل اور ثالثا ًمسیحیت کو ترک کر کے اسلام قبول کرنے والے ہسپانوی مسلمان ۔سقوط غرناطہ کے فورا بعد اصل عربوں کی اکثریت نے اپنی جانوں کو بچانے کے لیے (جائیداد کو بچانے کی نہیں کیونکہ انہیں اپنی دولت ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی) اسپین چھوڑ کر تیونس اور مراکش جیسے عرب ملکوں کا رخ کیا ۔ان میں سے بھی سب اپنی جان نہیں بچا سکے بلکہ ان کی اکثریت راستوں میں صلیبی لشکروں کے حملوں میں ہلاک کر ڈالی گئی ۔ہسپانیہ میں باقی رہ جانے والے اصل عرب مسلمانوں کو ، جنہوں نے اپنے نئے وطن کو نہ چھوڑ نے اور وہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا ،نئے عیسائی حاکموں نے انہیں غیر ملکی اور اسپین کے غارت گر قرار دے دیا ۔مسلمانوں کے اس دوسر ے گروہ نے ،جن کے باپ مسلمان لیکن مائیں ہسپانوی النسل عیسائی تھیں ،کنگ فردیننڈ کے اس وعدے پر اعتبار کرتے ہوئے کہ ان کی حکومت میں سبھی شہریوں کو کامل مذہبی آزادی ہوگی ،ہسپانیہ ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا ۔ ابتدائی برسوں کے دوران ان کی جانوں اور املاک پر صلیبی دہشت گردوں کے حملے ہوتے رہے لیکن کنگ فردیننڈ کی نئی صلیبی حکومت نے انہیں عارضی واقعات قرار دے کر نظر انداز کر دیا اور مجرموں کو کبھی سزائیں نہیں دی گئیں۔ہندوستان میں فرقہ پرستوںبی جے پی ،آرایس ایس اوروی ایچ پی یعنی ویشواہندوپریشد کی یہی بولی ہے۔ ہندوستان 1947ء میں برطانوی سامراج سے آزاد ہوا لیکن آزادی کے بعد مسلمانوںکے خاتمے کے لئے مسلم کش فسادات میں فسادیوں کوکھلی چھوٹ دی گئی اور ان کے خلاف کبھی کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی ۔غرض اسپین میں ان دوسرے زمرے والے مسلمانوں کی جان و مال پر ہونے والے حملے کبھی کم نہیں ہوئے بلکہ قریب پچاس سال تک بے روک ٹوک جاری رہے،بالکل ویسے ہی جیسے1947ء کے بعد ہندوستان میں ہو رہے ہیں ۔ابتدائی برسوں میں مسلمانوں نے کچھ مزاحمت بھی کی ۔کہیں کہیں گلیوں میں کچھ جنگ و جدل کا سا سماں دیکھنے میں آیا لیکن بتدریج یہ مزاحمت دم توڑ گئی اور یک طرفہ حملوں میں مزید شدت آتی چلی گئی ۔ روزاول سے ہی پولیس اوردیکرلاء اینڈ آرڈر فورسز ہندوستان میں مسلم کشی کے سانحات کی تماشائی ہیں۔ادھر اسپین میں جہاں منظم صلیبی گروپ مسلمانوں کو قتل کرتے پھر رہے تھے، وہیں کنگ فردیننڈ کی حکومت نے سرکاری نوکریوں ،سروسز، خدمات سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی پالیسی اختیار کی سب سے پہلے نظم و نسق سے عربی زبان کو بہ یک بینی و دو گوش نکال باہر کیا گیا ،پھر مساجد میں قائم مدارس پر یہ پابندی عائد کردی گئی کہ وہ عمومی نصابی مضامین مثلا سائنس ،ریاضی ،تاریخ اور فلسفہ وغیرہ کی تعلیم نہیں دے سکتے ،وہ صرف مذہبی تعلیم تک خود کو محدود رکھیں اور ملک کے صلیبیوں کو جو تاریخ پڑھائی جانے لگی اس میں پوری مسلم حکمرانی کو بربریت کا تاریک دور قرار دے دیا گیا اور اسپین کی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری کو بیک قلم مسترد کردیا گیا ۔ ہتھیار چھپا کر رکھنے اور خفیہ اجلاس کرنے کے الزامات کی آڑ میں ہسپانوی پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی وہراسانی معمول بن گئی ۔ اصل عرب مسلمانوں کو صلیبیوں کے دشمن اور اسپین کے غارت گر کے بطور نمایا ں کیا جانے لگا اور ،مسیحیت سے مسلمان ہوجانے والوں کو یہ باور کراتے ہوئے کہ ان کے اجداد کو جبرا مسلمان بنایا گیا تھا، دوبارہ مسیحیت قبول کرنے پر مجبور کیا جانے لگا اور کہا یہ جانے لگا کہ اب چونکہ نظام ِجبر ختم ہو چکا ہے، اس لیے انہیں مسیحیت میں واپس آجانا ۔مسلمانوں کے دوبارہ عیسائیت قبول کرنے کی جھوٹی تقریبات منعقد کی جا تی تھیں اور پھر پورے ہسپانیہ میں اس کی منظم تشہیر کی جاتی تھی ۔ ساتھ ساتھ اسلامی شریعت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور اسلامی طریقے سے ہونے والے نکاح کی سرکاری رجسٹریشن لازمی کر دی گئی ۔اسپین میں اختیار کردہ ان سبھی حربوں پر ہندوستان عرصہ دراز سے عمل در آمد جاری رکھے ہوئے ہے۔اس طرح سقوط ہسپانیہ کے بعد منظم طریقے سے مسلمانوں کو تضحیک و تذلیل ،لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ان کے گھروں اور دوکانوں وغیرہ کو نذرِ آتش کیے جانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ۔ہندوستان میں بھی بی جے پی ،کے چھترچھایے میںآرایس ایس اوروی ایچ پی اوراس طرح کی درجنوں فسطائی تنظیمیں وہی سب کچھ کر رہی ہیںاور یہاں اکیسویں صدی میں ان کے لیے لو جہاد اورگھر واپسی کی اصطلاحیں وضع کر لی گئی ہیں۔ہسپانوی مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے تو اپنے بچوں کو مساجد اور گھروں میں عربی اور قرآن سکھا کر اپنے دین کو محفوظ رکھنے کا بے مزاحمت طریقہ کار اختیار کر رکھا تھا لیکن بتدریج وہ اپنی غیرت و حمیت کھوتے چلے گئے اور جب صرف سرکاری ایجنسیوں کے توسط ہی سے شادیاں کروانے کا حکم دیا گیا تو ابتدائی مرحلے میں تو مسلمانوں نے متوازی طور پر دونوں طریقوں سے شادیاں کرنے کا طریقہ اپنائے رکھا یعنی پہلے گھر پر شرعی طریقے سے نکاح کیا اور پھر سرکاری طریقے سے بھی شادیاں کیں لیکن بتدریج گھروں میں خفیہ طور پر ہونے والی تقریبات ِنکاح ختم ہوتی گئیں اور صرف سرکاری شادیاں ہی باقی رہ گئیں ۔