5اگست 2019کے لاک ڈائون کے بعدکشمیر میں15 مارچ2022 سے اگرچہ اسکول اورتعلیمی ادارے2برس سے زائد عرصے کے بعد دوبارہ کھل چکے ہیں تاہم اس کے باوجود البتہ یہ اندیشے پائے جاتے تھے کہ پھرسے کوئی نادر شاہی حکم نامہ صادر ہوجائے گا اور کشمیر میں تعلیمی اداروں کوبند کردیا جائے گایہ اندیشے اس وقت درست ثابت ہوئے کہ جب13جون 2022 کومقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کی گورنر انتظامیہ نے 332سکولوں پریہ کہتے ہوئے پابندی عائد کردی کہ ان کا انتظام وانصرام جماعت اسلامی جموںوکشمیرچلارہی ہے۔اس پابندی کے باعث ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہزاروںطلبا وطالبات کی تعلیم ایک بار پھر متاثر ہوئی اور نظام تعلیم درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ مقبوضہ جموںو کشمیر میں معیاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے جماعت اسلامی جموںوکشمیرنے 1972 میں فلاحِ عام ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس سکول سسٹم پرسب سے پہلے 1977 میں اُس وقت کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ غدارکشمیر شیخ عبداللہ نے پابندی عائد کی تھی اور ان سکولوں میں تعینات اساتذہ کو سرکاری محکمہ تعلیم میں نوکریاں فراہم کی تھیںجبکہ 1990 میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی توبھارت نے جماعت اسلامی جموںوکشمیرکو حزب المجاہدین کی ماں سمجھ کرجماعت اسلامی جموںوکشمیر پرپابندی عائد کردی جس کے بعدجماعت کے زیر انتظام چلنے والے فلاح عام اسکولزنہ صرف متاثر ہوئے بلکہ تقریباََ ختم ہوکررہ گئے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی جموںوکشمیرنے حزب المجاہدین کونہیں بنایا۔اس تنظیم کے بانی ناصرالاسلام شہید تھے جن کاجماعت اسلامی سے کوئی وابستگی نہیں تھی ۔البتہ یہ ضرور ہے کہ جب حزب المجاہدین ریاست گیرتنظیم کے طورپر ابھر کرسامنے آئی تواحسن ڈار کے ذریعے جماعت اسلامی حزب المجاہدین پروقتی طور پرحاوی رہی ۔ بہرحال نریندر مودی کی فسطائی حکومت بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں ایسے تمام اداروں کو ختم کرتی جارہی ہے جوکبھی کسی اسلامی تنظیم کے ساتھ منسلک رہے ہوں یاپھر ان کے ساتھ اسلامی لاحقے لگے ہوں۔ مودی سرکار نے اپنے اسی خناس کا مظاہرہ کیا اور 13جون2022 سوموار کوجموںو کشمیر میں بھارت کی گورنر انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں 332 سکولز پرپابندی عائد کردی ہے مقبوضہ کشمیر کے 10 اضلاع میںقائم ان سکوکوں میں80 ہزار بچے اور بچیاں زیرِ تعلیم ہیں اور تدریسی اورغیرتدریسی عملے سمیت10 ہزار اساتذہ اوردیگرعملہ کام کر رہاتھا۔ان سکولوں میں اپنے دفاع میں لٹھ چلانے کی کوئی تربیت نہیں دی جارہی تھی ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان سکولوں پر پھرپابندی کیوں عائد کردی گئی ہے ۔جب ہم معاملے کہ تہہ میں جاتے ہیں تو ان 332سکولوں پر پابندی عائد کرنے کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے وہ یہ کہ بھارت کی کٹھ پتلی گورنرانتظامیہ کوجس ادارے پرشک گزرتاہے کہ یہ ضرور کوئی اسلامی ادارہ ہوگاتواس اداروں کے ساتھ لگے اسلامی لاحقے کو مٹانے کے لئے پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی گورنر انتظامیہ کے ماتحت چلنے والے محکمہ تعلیم اس بات کواچھی طرح سمجھتی ہے کہ عملی طورپراب یہ سکول جن پرپابندی عائد کردی گئی ہے جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے براہ راست نتظام میں نہیں تھے۔ ٹرسٹ کے ناظم تعلیم شوکت احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کاجماعت اسلامی یا کسی اور سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کاکہناتھا کہ ان کے سکولوں میں وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے جو سرکاری اور دوسرے نجی سکولوں میں رائج ہے اور انڈیا بھر سے ماہرین ہمارے ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔لیکن اس طرح کی صفائی پیش کرنے کے باوجود پانچ منٹ کے لئے مان بھی لیتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے شعبہ تعلیم فلاح عام ٹرسٹ نے ان کی داغ بیل ڈالی تھی اوریہ بھی مان لیتے ہیں کہ جماعت اسلامی درپردہ ا سکولزکوچلارہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں اسکی گورنر انتظامیہ جماعت اسلامی جموںوکشمیر سے خائف کیوں ہے جبکہ جماعت اسلامی کی صف اول کی کمان نے اپنے امیرکی قیادت میں ایک بار نہیں بلکہ کئی بارسری نگرمیں پریس کانفرنسیں منعقد کیں جن میں اس نے نہ صرف حزب المجاہدین سے بلکہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی غاصبانہ تسلط کے خلاف ہورہی مسلح جدوجہد سے یہ کہتے ہوئے اعلان برات کیاکہ جماعت اسلامی جموںوکشمیرکاروزاول سے ہی کشمیر کی مسلح تحریک سے کوئی وابستگی نہیں رہی ۔جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی پریس کانفرنسوں میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ اس کے باوجود یہ بات انکی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جماعت اسلامی جموںوکشمیر کو کیوں مسلح جدوجہدکے ساتھ نتھی کیاجارہا ہے ۔جماعت اسلامی جموں وکشمیر کاکشمیر کی عسکری جدوجہد سے دامن چھڑانازبانی کلامی کی حد تک نہیں رہابلکہ جماعت اسلامی جموںوکشمیرنے عملی طورپر اس تحریک سے ناطہ ورشتہ توڑ کر سید صلاح الدین اورسید علی گیلانی مرحوم کو جماعت اسلامی کی بنیادی رکنیت ختم کرکے دونوں کاجماعت اسلامی سے اخراج کردیا۔ یہ بھارتی حکمرانوں کی منصوبہ بندی ہے کہ چاہے کوئی کشمیر کی تحریک آزادی کاساتھ دیتا ہے یا نہیں دیتالیکن اس پر خوف کی تلوار لٹکتی رہنی چاہیے اور جماعت اسلامی جموںوکشمیر کے ساتھ بھی یہی معاملہ جاری ہے ۔5اگست 2019سے مقبوضہ کشمیر میں تمام تعلیمی ادارے کووڈ19کے نام پرلاک ڈائون کے باعث پے در پے 2سال سے زائد عرصے تک بند رہے اورلاک ڈائون کے نام پرسکولوں اورتعلیمی اداروں کی مسلسل بندشوںنے کشمیر کے10 لاکھ سے زائد اسکول کے طلباء وطالبات کی تعلیم کو متاثرزبردست کیا ہے۔اس دوران طلباء سے کہاگیا ہے کہ وہ آن لائن ایجوکیشن سے استفادہ کریں لیکن آن لائن کلاسزمیںوہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی گورنر انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں موبائل سروس بندکردی تھی۔مارچ2022 سے اگرچہ اسکول اورتعلیمی ادارے دوبارہ کھل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ڈر لگارہتا ہے کہ کب پھر کوئی نادر شاہی حکم نامہ صادر ہوجائے اورپھر سے کشمیر میں تمام تعلیمی اداروں کوبند کردیا جائے جس کی تازہ ترین مثال مقبوضہ کشمیر کے 332 سکولوں کی بندش ہے ۔