بھارتی نقطہ نظر سے اس قسم کی جنگ دنیا کے بلند ترین مقام سیاچن اور کارگل میں لڑی جا سکتی ہے جہاں 1980ء کے بعد پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ معمول بن چکا ہے۔ بی جے پی نے اس ڈاکٹرائن سے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت میں تال میل ملانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے کارگل پر قبضے کے بعد بھارت مہینوں تک حیران و پریشان رہا تھا مگر بعد میں پاکستان کی اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کو وہاں سے نکلنا پڑا ،مگر وی پی ملک نے خود کو فاتح اور فیلڈ مارشل کے طور پر پیش کیا۔ وی پی سنگھ کو اور اس کی ڈاکٹرائن کو لداخ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جہاں چین نے بغیر وارننگ کے کارروائی کر کے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے۔ خواب کبھی حقیقت نہیں ہوتے۔ بھارتی فوجی سٹرکچر اور بھارت کی منتشر ملٹری انڈسٹری بھارت کا دفاعی سامان کے لحاظ سے دوسروں پر انحصار عسکری نقل و حمل کی عدم صلاحیت اس خواب کے حقیقت میں بدلنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے بجائے اب بھارت اپنے ہمسائے کے ساتھ ڈپلومیسی سے مسئلہ حل کرنے پر مجبور ہے۔ گو بھارت چین کا مقابلہ کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ درآمد کرتا رہا۔ بھارت کو اسلحہ برآمد کرنے والی مغربی انڈسٹری کو بھی اپنا اسلحہ فروخت کرنے میں دلچسپی تھی بجائے اس کے بھارت کو یہ بتائے کہ یہ اسلحہ پاکستان کے خلاف تو استعمال ہو سکتا ہے مگر چین کے خلاف موثر نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب چین عسکری اہمیت کے حامل بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں گھس کر بیٹھ گیا ہے بھارت خوش خیالی میں مبتلا اپنی بے بسی چھپانے پر مجبور ہے اب بھارت کے لئے کوئی آپشن نہیں بچا۔ پاکستان کے کارگل پر قبضے کے بعد بھارت مہینوں تک حیران و پریشان رہا تھا مگر بعد میں پاکستان کی اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کو وہاں سے نکلنا پڑا ،مگر وی پی ملک نے خود کو فاتح اور فیلڈ مارشل کے طور پر پیش کیا۔ وی پی سنگھ کو اور اس کی ڈاکٹرائن کو لداخ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جہاں چین نے بغیر وارننگ کے کارروائی کر کے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے۔ خواب کبھی حقیقت نہیں ہوتے۔ بھارتی فوجی سٹرکچر اور بھارت کی منتشر ملٹری انڈسٹری بھارت کا دفاعی سامان کے لحاظ سے دوسروں پر انحصار عسکری نقل و حمل کی عدم صلاحیت اس خواب کے حقیقت میں بدلنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے بجائے اب بھارت اپنے ہمسائے کے ساتھ ڈپلومیسی سے مسئلہ حل کرنے پر مجبور ہے۔ گو بھارت چین کا مقابلہ کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ درآمد کرتا رہا۔ بھارت کو اسلحہ برآمد کرنے والی مغربی ملٹری انڈسٹری کو بھی اپنا اسلحہ فروخت کرنے میں دلچسپی تھی بجائے اس کے بھارت کو یہ بتایا جائے کہ یہ اسلحہ پاکستان کے خلاف تو استعمال ہو سکتا ہے مگر چین کے خلاف موثر نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب چین عسکری اہمیت کے حامل بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں گھس کر بیٹھ گیا ہے بھارت خوش خیالی میں مبتلا اپنی بے بسی چھپانے پر مجبور ہے اب بھارت کے لئے کوئی آپشن نہیں بچا۔ بھارت چین کو سبق کس طرح سکھا سکتا ہے جب بھارت کا معاشی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے چین پر انحصار ہو اور اس کو ہزاروں کلو میٹر سرحد پر جنگ لڑنا پڑے۔ مودی کی معاشی پالیسیوں ،کووڈ 19اور چین نے بھارت سے اپنامعاشی تعلق ختم کر کے بھارت کو دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہاں البتہ بھارت نے پاکستان کے خلاف عسکری قوت بڑھانے میں تسلسل ضرور برقرار رکھا ہے مگر اس حوالے سے بھی بھارت قومی قوت پر ہی زیادہ انحصار کر رہا ہے اور تعصب اور پاکستان دشمنی کے جذبات کو ابھارا جا رہا ہے۔ بھارت کا میڈ ان انڈیا کا تصور قابل فخر ہونا بھی گلوبلائزیشن کے بعد چین کے عالمی منڈی پر سرعت سے چھا جانے کے بعد خاک میں مل چکا ہے۔ بھارتی انڈسٹریل ’’جن‘‘ جن میں امبانی اور مٹل سرفہرست ہیں وہ بھی بھارتی ملٹری انڈسٹری کو محفوظ کرنے کے لئے کچھ خاص نہ کرپائے صرف بھارت ٹاٹا کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خود انحصاری کی منزل پانے میں کامیاب ہو سکا ہے گو پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا ناقابل تسخیر قومی قوت اور یکجہتی بنائے رکھنے میں کردار 70ء کی دہائی کے بعد برائے نام ہی رہا ہے۔ صرف فوج نے ہی قومی تشخص کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاک فوج مقامی مینو فیکچرنگ ملٹری خود انحصار کی منزل پا چکی اور معیاری فوجی ڈھانچہ اور لاجسٹک بنا چکی ہے۔ پاکستانی فوجی ڈھانچے میں اب اتنی پختگی آ چکی ہے کہ پاک فوج دوہری ٹیکنالوجی کے ہر سطح پر استعمال کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے چاہے جنگی جہاز کی تیاری ہو یا بحری جہازوں کی یا پھر ایک فوجی سازو سامان ہو پاک فوج مقامی طور پر تیار کردہ اور ساماں اور برآمد شدہ دفاعی سلحہ میں مطابقت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ چاہے بھاری اسلحہ ہو کمیونیکشن کا نظام ہو یا ٹرانسپورٹ۔ موجودہ تناظر میں دو محاذ کی سوچ کا کوئی جواز نہیں اب بھارت کو مشرق سے ہمالیہ کے قراقرم سلسلہ اور گوادر تک کے محاذ کا سامنا ہو گا اب بھارت کے جوہری چھتری کے نیچے محدود جنگ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جبکہ مکمل جوہری جنگ کوئی آپشن ہی نہیں اب بپن راوت کا محدود جنگ کے ذریعے پاکستان کو تباہ کرنے کا خواب خواب ہی رہے گا بلکہ الٹا پاکستان اور حین مل کر بھارت کو اندر سے توڑنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔