پروفیسر مفتی محمد اکبر مصطفوی رجب اسلامی سال کا ساتواں ماہ ہے ۔ یہ ’’ترجیب‘‘ سے نکلا ہے ، جس کا معنیٰ ہے : تعظیم کرنا۔ رجب کی جمع ’’رَجاب‘‘،’’ رُجوب‘‘، ’’رجبات‘‘ اور ’’ارجاب‘‘ وغیرہ آتی ہے ۔اس ماہ کو یہ نام دینے میں کئی اقوال موجود ہیں لیکن درست ترین قول علامہ رافعی کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رجب کا معنی تعظیم کا ہے ، چونکہ عرب کے لوگ اس ماہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے اور لڑائی جھگڑا حرام سمجھتے تھے اس لیے اس ماہ کو یہ نام دے دیا گیا، بسا اوقات اس کے ساتھ ماہ شعبان ملا کر دونوں کو ’’رجبین ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے ۔ رجب کے علاوہ اس ماہ کو ’’شہر اَصَمّ‘‘، ’’شہر اَصَبّ‘‘ ، ’’شہر رَجْم‘‘، ’’شہر مُعَلّٰی‘‘، ’’شہر حَرَم‘‘ اور ’’شہر مُضَر‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجب کے فضائل: ماہِ رجب کو کئی طرح کے فضائل حاصل ہیں ۔اس کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کا شمار ان چار مہینوں میں ہوتا ہے جنہیں قرآن حکیم نے انتہائی محترم قرار دیا ہے ۔ اس سلسلے میں ارشاد خداوندی ہے :’’ بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتاب الٰہی میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ۔(اوریہ محکم و مضبوط نظام اس دن سے ہے )جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے ، ان میں سے چار ماہ عزت والے ہیں‘‘(سورۃ التوبہ)۔ مفسرین کا اجماع ہے کہ وہ چار ماہ جنہیں قرآن حکیم نے معزز و محترم قرار دیا ، ذیقعد، ذی الحجہ ، محرم اور رجب ہیں۔ اہل عرب زمانہ جاہلیت سے ہی ان ماہ کا اس حد تک ادب و احترام کرتے چلے آ رہے تھے کہ بدلہ و انتقام کے بری طرح عادی ہونے کے باوجود وہ اگر ان مہینوں کے دوران اپنے والد کے قاتل کو بھی دیکھ لیتے تو اسے کوئی ضرر نہ پہنچاتے ۔اسلام کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کی حرمت میں مزید اضافہ کردیاکہ ویسے تو احکام الٰہی سے روگردانی کرتے ہوئے فتنہ و فساد ، لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدال کی کسی بھی وقت اجازت نہیں لیکن اگر کوئی شخص ان مقدس مہینوں کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے ان میں لڑائی جھگڑا کرے گا تو اسے باقی مہینوں کی بہ نسبت دوگنا عذاب ملے گا۔ اس ماہ کی عظمت و فضیلت میں کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو آقا کریم علیہ التحیۃ و التسلیم یوں دعا فرمایا کرتے :’’ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَب وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘(شعب الایمان) یعنی اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لیے برکت نازل فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔ ۔نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے روزے پورے نہیں رکھے سوائے رجب اور شعبان کے (طبرانی )۔علاوہ ازیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی موقوفاً مروی ہے (اور یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے ) کہ جو شخص رجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھے گا اللہ اس کے لیے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھے گا ، اور یہ وہ دن ہے جس میں جبریل آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی لے کر نازل ہوئے (تنزیہ الشریعہ)۔ حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ رجب فصل بونے کا ، شعبان پانی دینے کا اور رمضان فصل کاٹنے کا مہینہ ہے ۔ ہر شخص جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے اور جو عمل کرتا ہے اسی کے مطابق بدلہ پاتا ہے (غنیۃ الطالبین)۔ اس ماہ کی ایک عظمت یہ ہے کہ اس کی ستائیسویں شب کورات کے خفیف حصے میں آقا کریم علیہ التحیۃ و التسلیم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک،اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش بلکہ بالائے عرش تک مع جسم تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل کیا جو کسی کو نہ کبھی حاصل ہوا نہ ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمال خدا ظاہری آنکھوں سے جیتے جاگتے دیکھا اور اس کا کلام براہ راست سنا، نیز تمام ملکوت السموات و الارض کو پوری تفصیل سے ذرہ ذرہ کر کے ملاحظہ کیا ۔ اسے ’’معجزہ معراج‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ رجب کے معمولات:صاحب بہار شریعت ، مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ماہ رجب کے چند معمولات کی شرعی حیثیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ماہ رجب میں بعض جگہ سورۂ ملک چالیس مرتبہ پڑھ کر روٹیوں یا چھوہاروں پر دم کرتے ہیں اور ان کو تقسیم کرتے ہیں اور ثواب مُردوں کو پہنچاتے ہیں ،یہ بھی جائز ہے ۔اسی ماہ رجب میں حضرت جلال بخاری علیہ الرحمۃ کے کونڈے ہوتے ہیں کہ چاول یا کھیر پکوا کر کونڈوں میں بھرتے ہیں اور فاتحہ دلا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں یہ بھی جائز ہے ۔ ہاں! ایک بات مذموم (بری)ہے اور وہ یہ کہ جہاں کونڈے بھرے جاتے ہیں وہیں کھلاتے ہیں ، وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے یہ ایک لغو حرکت ہے ۔ اسی طرح ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہے ، مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے ۔ اس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ’’داستان عجیب‘‘ ہے اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھواتے ہیں ، اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ، وہ نہ پڑھی جائے ، فاتحہ دلا کر ایصال ثواب کریں‘‘(بہار شریعت)۔ بعض لوگ اس ماہ کی 26اور 27تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں ، پہلے کو ’’ہزاری ‘‘ اور دوسرے کو ’’لکھی‘‘ کہتے ہیں یعنی پہلے میں ہزار روزے کا ثواب اور دوسرے میں ایک لاکھ کا ثواب بتاتے ہیں ، ان روزوں کے رکھنے میں تو کوئی حرج نہیں ، البتہ یہ جو ثواب کے متعلق مشہور ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ماہ رجب کی چھٹی تاریخ کو حضور غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ کی فاتحہ اور ایصال ثواب بھی بزرگوں کے معمولات میں سے چلا آ رہا ہے ۔