حکومت پر تنقید بہت ہو چکی‘ کرونا کی وبا سے نمٹنے میں کس سے کہاں غلطی ہوئی؟سب عیاں ہے ۔اجتماعی اور انفرادی سطح پر توبہ و استغفار کا سلسلہ جاری ہے ۔گھروں اور مساجد میں رات کے وقت اذانوں کی دیرینہ روائت کا احیا ہوا ۔بیت اللہ‘ مسجد نبویؐ اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی مساجد کی بندش سے اہل ایمان کو یہ پیغام ملا کہ پہلے اللہ تعالیٰ موذن کے ذریعے ہر کلمہ گو کو اپنے گھر بلاتا تھا مگر غافل‘ کاہل اور زود فراموش انسان نے اس بلاوے کی پروا نہ کی اب لوگ ان مقامات مقدسہ میں جا کر اپنی خطائوں کی معافی مانگنا چاہتے ہیں‘ مساجد میں جا کر تباہ کن وبا سے نجات کی دعائیں مانگنے کے لئے بے قرار ہیں مگر دروازے بند ملتے ہیں صرف مسلمان نہیں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خدائی ممانعت کی زد میں ہیں‘ بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ بیت اللہ ‘مسجد نبویؐ اور مساجد کے دروازے تو خطاکاروں کے ساتھ نیکو کاروں اور شب زندہ داروں پر بھی بند کر دیے گئے ‘ ان کا قصور کیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جبرئیل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو الٹ دو کہ اس میں نافرمانی بڑھ گئی ہے‘ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی باری تعالیٰ !اس میں فلاں عبادت گزار بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے برابر آپ کی نافرمانی نہیں کی‘ ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ اس بستی کو الٹ دو‘ اس بندے پر اور ان لوگوں پر‘ نافرمانیوں کو دیکھ کر میری خاطر اس کے چہرے کا رنگ نہیں بدلا‘‘ آپ ؐ نے حدوداللہ پر قائم رہنے اور ان سے تجاوز کرنے والوں کی مثال یوں بیان فرمائی’’ایک بحری جہاز پر سوار مسافروں نے اسے دو حصوں میں باہم تقسیم کر لیا‘ ایک عرشے اور دوسرے زیریں حصے پرقابض ہو گئے‘ زیریں حصے میں رہنے والوں کو پانی لینے کے لئے اوپر جانا پڑتا تھا‘ جس کا بالائی مسافر بُرا مناتے ۔زیریں حصے والوں نے تنگ آ کر سوچا کہ ہم جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کر کے پانی لے لیتے ہیں تاکہ ہمارے بار بار جانے سے اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو‘ اب اگر اوپر والوں نے نیچے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔وہ سوراخ کرتے رہے تو جہاز میں پانی بھرنے سے اوپر‘ نیچے والے سب ڈوب جائیں گے‘ لیکن اگر انہیں روک دیا تو تمام مسافر غرق ہونے سے بچ جائیں گے۔‘‘ ایک معمولی جرثومے کے ذریعے وحدہ لاشریک نے انسان کو باور کرایا کہ اس کی مرضی اور منشا کے بغیر نظام کائنات نہیں چل سکتا۔ انسانی عقل و دانش ماند پڑ جاتی ہے اور سارے اسباب و وسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ دو تین ماہ قبل کوئی شخص یہ کہتا کہ سودی نظام اللہ تعالیٰ سے جنگ ہے تو اُسے احمق و بے وقوف قرار دے کے جھٹلایا جاتا۔’’کیا بات کرتے ہو‘ سود کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا ‘‘مگر آج عالمی معیشت کا پہیہ جام ہے اور امریکہ و سودی معیشت کے دیگر علمبردار شرح سود صفر پر لا کر اس پہیے کو چلانے کی سعی ناکام کر رہے ہیں‘ جسم فروشی‘ ہم جنس پرستی اور دیگر فواحش و منکرات کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے گلے ملنا تو درکنار کوئی ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے پر تیار نہیں اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ الاپ کر کل اور آخرت کا مذاق اڑانے والے ہمہ دم کل کی فکر میں مبتلا ہیں ‘اپنے آج سے خائف کل سے پریشان اور مستقبل سے ہراساں۔’’میں جو مرضی کروں‘‘کے غرور میں مبتلا بندگان بے کس کو اپنا ہاتھ چہرے تک لے جاتے‘آنکھ‘ ناک‘ زبان کو چھوتے ڈر لگتا ہے اور عریانی و بے لباسی اور بے شرمی و فحاشی کو بنیادی حق جتلانے والے ہاتھ و چہرہ ڈھانپے بغیر باہر نکلنے سے قاصر ہیں۔ یہ خوشی یا دوسروں کا تمسخر اڑانے نہیں‘اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا وقت ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کے داعی ہیں اور ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کو ریاست مدینہ میں ڈھالنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں‘ قدرت نے انہیں سنہری موقع عطا کیا ہے کہ وہ خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو مسلم سربراہوں کی ایک روزہ کانفرنس جس کا ایک سیشن بیت اللہ شریف اور دوسرا سیشن مسجد نبویؐ میں تمام تر احتیاطی تدابیر‘ سماجی فاصلے کے تقاضے پورے کرتے ہوئے‘ بلانے کی ترغیب دیں‘ مسلم سربراہان کانفرنس میں اپنی اور اپنے عوام کی اجتماعی و انفرادی غلطیوں کا اعتراف کریں کہ جھوٹ‘ فریب‘ ناانصافی‘ ظلم‘ ملاوٹ ‘ ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی‘ ناپ تول میں کھوٹ‘معصوم بچوں‘ بچیوں سے زیادتی ‘حقوق العباد سے پہلو تہی ‘سود‘ غلامی ‘ طاقت و دولت کی پوجا ‘ کمزوروں کی حق تلفی اور دیگر سماجی و معاشی برائیاں پروان چڑھتی رہیں مگر وہ انہیں روکنے کے بجائے فروغ دینے میں پیش پیش رہے ‘سارے طاقتور و بااختیار حکمران مل جل کر خدائے ذوالجلال کے روبرو سجدہ ریز ہوں اور توبہ و استغفار سے رحمت خداوندی کو جوش دلائیں کہ وہ مضطرب دل کی دعا قبول فرماتا ہے‘ دعا یہ کریں کہ یا رحمن و رحیم انسانیت کو کرونا سے نجات دے اور اُسے مزید آزمائش میں نہ ڈال۔آئندہ اپنی اپنی ریاستوں کو اسلامی‘ فلاحی ریاست بنانے کا عہد کریں‘ ریاست مدینہ کی طرح عدل و انصاف اور انسانی فلاح و بہبود کا بہترین نمونہ ؎ کس نبا شد در جہاں محتاج کس نکتہ شرح مبیں این است و بس کی آئینہ دار ریاست ‘ یہ اُمہ کی طرف سے اجتماعی توبہ کا اہتمام ہو گا اور اللہ تعالیٰ سے نیا عہد استوار کہ اب سرکشی و بغاوت سے ہماری توبہ۔ اپیل کر دیکھیں‘ اگر اپنے مفادات کے اسیر مسلم حکمرانوں نے توجہ نہ دی تب بھی عمران خان اپنے رب کے روبرو سرخرو ہوں گے‘ بیت اللہ اور مسجد نبوی میں کانفرنس کا انعقاد اس بات کا اعلان بھی ہو گا کہ مسلمان ایک بار پھر اللہ کے گھر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اب ان کی ترجیحات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے محبوب حضرت محمدﷺ کی سیرت و تعلیمات ترجیح اوّل ہے ایاک نعبدو ایاک نستعین اے معبود حقیقی ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ سے مدد مانگتے ہیں‘ تیرے سوا دوسروں سے مانگ کر ہم رسوا ہوئے‘ ہم مزید رسوا ہونے کے متحمل نہ خواہش مند ؎ آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے بادلو ہٹ جائو دے دو‘ راہ جانے کے لئے اے دعا‘ ہاں عرض کر عرش الٰہی تھام کے اے خدا اب پھیر دے رخ‘ گردش ایام کے ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزش غم کے لئے کر رہے ہیں‘ زخم دل فریاد مرہم کے لئے رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے خوار ہیں‘ بدکار ہیں‘ ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں (تجلیات حشر) رحمت خداوندی یقینا جوش میں آئے گی(انشاء اللہ)