کراچی کے بارے میں ، جو ہماری جائے پیدائش و خواری ہے،مرشدی یوسفی فرماتے تھے کہ یہ خوبی کراچی کے موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کے نکلو دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہونے لگتا ہے۔مرشدی کسر نفسی سے کام لے گئے ورنہ ہمیں تو ایک گھنٹے بعد ہی موسم اور لباس دونوں غلط معلوم ہونے لگتے تھے۔ کراچی والوں کے مزاج اور موسم کے تلون میں بڑی مستقل مزاجی پائی جاتی ہے۔ موسم سرما میں یعنی جنوری میں جب ٹمپریچر بتیس ڈگری ہوتا اور ہم پشاور کی باڑہ مارکیٹ سے شوق سے خریدی چمڑے کی جیکٹ چڑھا کر گھر سے نکلتے تو راہ گیر اور اہل محلہ منہ دبا کر ہنسنے لگتے۔ خود انہوں نے روس کا درآمد شدہ کمبل اوڑھا ہوا ہوتا۔ہم انہیں دیکھ کر زیر لب مسکراتے کیونکہ دوپہر بارہ بجے گرمی سے ہڑبڑا کر جیکٹ تو اتار کر بازو پہ ڈالی جاسکتی ہے کمبل توکمبل ہی ہوجاتا ہے۔یوں اہلیان کرانچی کا موسم سرما ایک دوسرے پہ ہنستے مسکراتے پان کھاتے خوشی خوشی نکل جاتا۔اکثر رات کو ائیرکنڈیشنر چلانا پڑتا پھر دو کمبل اوڑھ کر ہم ٹھنڈے کمرے میں مزے سے سوتے۔کراچی کی گرمی بھی ایسی ہی کنفیوزڈ ہوا کرتی ہے۔جس دن صبح سورج کا موڈ دیکھ کر لگتا ہے آج غضب کی گرمی پڑے گی، اس دن دوپہر کو بادل چھاجاتے ہیں گو وہ کہیں اور برسنے کو ادھر سے گزرے والی بات ہوتی ہے۔گرمیاں عام طور پہ مئی سے جون کے کچھ دنوں میں یا پھر ستمبر میں پڑتی ہیں اور اہلیان کرانچی کی مزدوری کا پسینہ نکلنے سے پہلے ہی خشک کردیتی ہیں۔پھر بھی شام تک سمندر سے آنے والی ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور کے الیکٹرک کو دی جانے والی خالص یوپی والی گالیوں میں کچھ وقفہ آجاتا ہے۔بارشیں کبھی کبھار یعنی چودہ اگست کو ہوجاتیں جن سے رات کو شوق سے لگائی جھنڈیاں بھیگ جاتیں اور ہم اس برائے نام باران رحمت کو قیام پاکستان پہ خدائی مہر سمجھ کر سجدہ شکر بجا لاتے۔کراچی میں مون سون تو آتا نہیں یہی موڈی بارشیں ایک دو سال بھلاوا دے کر کسی سال ایسا برستی ہیں کہ اللہ اور مصطفی کمال یاد آجاتے ہیں۔ایم ا ے جناح روڈ ٹھاٹھیںمارتی اور شاہراہ فیصل طغیانی پہ آجاتی ہے جسے کئی بار ہم نے خود تیر کر پار کیا۔یہ بارش عام طور پہ سر شام اچانک شروع ہوتی ہے اور رات بھر دھواں دھار برستی ہے۔ سیانے سے سیانا کرانچوی بھی صبح موسم کا اندازہ لگا کر دفتر سے بیوی کی بیماری کا بہانہ بنا کر سٹکنے نہیں پاتا اور دفتر میں بیٹھا رہ جاتا ہے۔ جو زیادہ سیانا ہوتا ہے وہ دفتر میں ہی رات گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ جسے بیوی بچوں کی زیادہ یاد ستاتی ہے وہ جان اور حسب توفیق کار یا موٹر سائیکل ہتھیلی پہ دھر کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور نکل بھی کیا کھڑا ہوتا ہے خود کو حالات اور شاہراہ فیصل کے حوالے کردیتا ہے جو بہاتی بہاتی اسے راشد منہاس روڈ تک لے جاتی ہے۔وہاں سے وہ اپنے گھر جانے والی تازہ لہر پہ سوار ہوجاتا ہے اور بالآخر اپنے محلے کے مانوس گٹر کی لیک کو پہچانتا پہلے اپنے محلے پھر گھر پہنچتا ہے جہاں گھر والے اسے نیند خراب کرنے پہ خشمگیں نگاہوں سے گھورتے اور چلو نہا کے سو جائو کی تلقین کرکے خود بھی بستروں میں گھس جاتے ہیں۔ ایسا سرد استقبال دیکھ کر وہ بھی خود کو کوستا ہے کہ کیوں نہ دفتر میں بیٹھ کر مفت کی چائے ڈکوسی ۔ایسی کبھی کبھار کی بارشوں میں ہم نے کراچی کو زیر آب آتے اور مصطفی کمال کو جو ایک شہر کے مئیر تھے، کسی صوبے کے خادم اعلی نہیں تھے،لمبے بوٹ پہن کر ساری ساری رات سڑکوں سے پانی نکالنے کے کام کی خود نگرانی کرتے دیکھا۔ کراچی میں ہر سال مون سون نہیں آتا اس لئے کبھی کبھار کی بارش میں ایسے حالات پیدا ہوجانا ، جو نہیں ہونے چاہئیں بہرحال سمجھ میں آنے والی بات ہے۔وہاں ایک رات میں حالات خراب ضرور ہوجاتے ہیں، اموات بھی ہوتی ہیں لیکن کبھی شاہراہ فیصل تو دور کی بات کسی ذیلی شاہراہ پہ بھی ایسا خوبصورت چورس آبشار نہیں بنا جیسا کہ مال روڈ پہ بن گیا۔ پنجاب میں مون سون معمول کی بات ہے۔ دنیا بھر میں ایسے علاقوں میں مون سون پلاننگ ہوتی ہے اور بارشوں کے حساب سے شہروں اور دیہاتوں میں پانی کی نکاسی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ایسے شہروں میں سڑکیں اور انڈر پاس بناتے وقت پانی کے بہائو کا خیال رکھا جاتا ہے اس لئے سوائے انتہائی قدرتی آفات کے، عام مون سون موسم میں پانی سڑکوں یا انڈرپاس میں جمع نہیں ہوتا۔ بارشوں کا پانی صاف اور قیمتی ہوتا ہے اس لئے اس کو ڈرین میں بہانے کی بجائے مناسب جگہو ں پہ ذخیرہ کرنے اور قابل استعمال بنانے کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اس حساب سے شجر کاری کی جاتی ہے جو بارش کے پانی کو زمین کے ان منطقوں میں روک سکیں جہاں اس کی ضرورت ہے۔بھارت میں مغربی بنگال کے انتہائی بارش والے علاقے سیلیگوری میں سادہ تکنیک استعمال کرکے ان مسائل پہ قابو پالیا گیا ہے۔ انہوں نے علاقے کی قدرتی سبزہ بندی کو اہمیت دی اور اسے برقرار رکھا ۔سڑکوں کی ڈھلان ، قدرتی نالوں کے بہائو کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی اور اس طرح بعد میں آنے والا مرمت کا خرچ بچا کر اسے زیر زمین پائپ لائنوں پہ لگایا گیا۔یہ قدرتی ڈرینج سسٹم کی طرز پہ بنائے جانے والا پائپ لائن نیٹ ورک ہر سال آنے والے سیلاب کے خطرے کو کم کردیتا ہے اور مون سون کا پانی استعمال میں آجاتا ہے۔اس کے علاوہ چھوٹے نباتات کا ایسا جال بچھایا گیا ہے جو بارش کے پانی کا بہائو کم کردیتا ہے۔اسے مائکرو گرین کہتے ہیں ۔ ہر مائیکروگرین جو ایک ہزار اسکوئر میٹر پہ مشتمل ہوتی ہے زیر زمین کاریز نما پائپوں سے جڑی ہوتی ہے جو پانی کو نیچے کھینچ کر لے جاتی ہے۔یوں پانی وہاں لے جایا جاتا ہے جہاں سے استعمال ہوسکے۔اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بڑے تالاب یا ذخیرہ گاہ بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مون سون بارشیں اللہ کی رحمت ہیں ، یہ خبر انتہائی حیرت انگیز ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس سال جون میں واٹر پالیسی بنائی گئی ہے۔اس سے فرق یہ پڑا ہے کہ اس سے قبل ہم بغیر کسی پالیسی کے خوار ہورہے تھے اب ایک پالیسی کے ساتھ ہونگے۔ یہ زحمت بھی یوں کی گئی کہ عالمی اداروں نے 2025ء تک پاکستان میں قلت آب کا شدید خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس سے قبل ہم کیپ ٹائون میں شدید قلت آب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہنگامی حالات کا مشاہدہ کرچکے تھے لیکن کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگی۔ ہمارے دریائوں پہ بھارت نے ڈیم بنالئے ہم یہی طے نہیں کرپائے کہ ہمیں بارش کے بعد نگراں حکومت کو برا بھلا کہنا ہے یا سابقہ حکومت کو جو دہائیوں صوبے اور وفاق میں حکومت کرنے کے باوجود بارشوں کی مینجمنٹ کرنے میں ناکام رہی ۔ لمبے بوٹ پہن کر مئیر لاہور عرف خادم اعلیٰ سے کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ہر سال اس کی نوبت ہی کیوں آتی ہے۔گذشتہ ماہ واسا نے مون سون بارشوں سے نمٹنے کے لئے لاہور کے پچیس مقامات پہ بارش کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ کے لئے منصوبہ بندی کی تھی تاکہ پانی کی مقدار اور بہائو کا بروقت اندازہ کرکے اس کا سدباب کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ٹیوب ویلوں اور پانی کے اخراج والے اسٹیشنوں پہ کم لاگت والے سینسر لگنے تھے جس پہ بجلی کا خرچ بھی کم سے کم سالانہ بیس فیصد کم آنا تھا۔اس منصوبہ کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کو ایسی ایپلیکیشنز بنانی تھیں جو ایل ڈی اے، واسا ، اربن ڈیولپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں استعمال ہونی تھیں۔ اس سلسلے میں واسا اور آئی ٹی یو کے درمیان ایم او یو پہ بھی دستخط ہوگئے تھے۔اس منصوبے میں چونکہ خرچ کم آنا تھا اور یہ کسی کو نظر بھی نہیں آنا تھا اس لئے اس کا کیا بنا یہ کل رات اہلیان لاہور نے دیکھ ہی لیا۔ پاکستان میں ہر سال بارش کا قیمتی پانی سیلاب کی صورت بہہ جاتا ہے۔ بارش کے پانی کوساری دنیا زراعت میں استعمال کرتی ہے اور چھوٹے ٹربائن لگا کر بجلی بنا رہی ہے۔ انتہائی کم بارشوں والے ممالک نے بہتر منصوبہ بندی سے اپنے بنجر ملکوں کو زرعی فارموں میں تبدیل کردیا ہے اور اپنے ممالک کی غذائی ضروریات پوری کررہے ہیں۔مون سون کی صورت میں اللہ کی یہ رحمت جو ہمیں بالکل مفت میں حاصل ہے دنیا کے بڑے ممالک کثیر سرمایہ خرچ کرکے حاصل کررہے ہیں۔دنیا اس وقت قلت آب کے سنگین خطرے سے دو چار ہے او ر مصنوعی بارشیں برسانے پہ بجٹ کا بڑ ا حصہ خرچ کرکے بھی حسب منشا نتائج حاصل نہیں کرپارہی۔چین 168 ملین ڈالر خرچ کرکے مصنوعی بارش برسانے کی کوشش کررہا ہے۔ہمیں مفت میں اللہ کی رحمت مل رہی ہے لیکن ساتھ مفت خور حکمران بھی ملے ہیں۔نصیب اپنا اپنا۔