بارش تو رحمت ہوا کرتی ہے۔خاص طور پر ان انسانوں کے لیے جو تپتے ہوئے صحراؤں اور جلتے ہوئے میدانوں میں جیتے ہیں۔ ان انسانوں کی آنکھیں ہمیشہ آسمان پر لگی رہتی ہیں۔ وہ ہواؤں میں بارش کی بو سونگھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موسم کا حال بتانے والی مشینیں تو اب ایجاد ہوئی ہیں۔ صحراؤں کے لوگ صدیوں سے سائنسی آلات کے بغیر بتا سکتے ہیں کہ بارش کب برسے گی؟ بادل کب گرجیں گے؟سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں بہت سارے گمنام انسان آج بھی موجود ہیں جو کل ٹی وی پرموسم کی خبریں نہیں سنتے تھے اور آج بھی وہ گوگل سے نہیں پوچھتے کہ بارش کب ہوگی؟ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بارش کب ہوگی؟ کتنی ہوگی؟ کب تک ہوگی؟ بلوچستان بنجر میدانوں کی سرزمین ہے۔ وہاں جب بارش ہوتی ہے تب لوگ فصل بوتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ بلوچستان کے لوگ بکرے کی ہڈی سے موسم کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست کے ناقابل فراموش کردار اکبر بگٹی کو بھی یہ علم آتا تھا۔ ان کو بھی یہ مہارت حاصل تھی کہ وہ جو بکرا سجی کرکے کھاتے تھے اس کی ہڈی کو ہاتھ میں اٹھا کر اور ایک عجیب انداز سے اسے گھما کر بتاتے تھے کہ بارش کب ہوگی اور کہاں ہوگی؟ جو لوگ اپنی مٹی سے جڑے ہوتے ہیں۔ جن انسانوں کی جڑ اپنی دھرتی میں لگی ہوتی ہے وہ لوگ فطرت سے ہم کلام ہونے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے۔ نواب اکبر بگٹی جدید ذہن کے کے مالک تھے لیکن وہ قدیم روایات کے پاسبان بھی تھے۔ اس لیے وہ اپنے اصولوں میں آخر وقت تک قائم رہے۔ ان کے لیے مشہور تھا کہ وہ آخری ایام میں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کی سیاست سے مایوس تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ سیاست سے اس قدر مایوس کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ میں سیاست سے نہیں بلکہ سیاستدانوں سے مایوس ہوں۔ نواب اکبر بگٹی سے اختلافات رکھے جا سکتے ہیں۔ خود بلوچ ترقی پسند حلقوں کو ان سے بہت سارے اختلافات تھے مگر اس بات پر ہمیں اتفاق کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ واقعی ہمارے سیاستدان جو حکمران بنتے ہیں وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں ذرا بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حالیہ بارشیں رحمت ہوتے ہوئے بھی زحمت کیوں بنتیں؟جب سنسناتی ریت اور خشک مٹی کو پانی کی ضرورت ہو۔ جب دھرتی پیاسی ہو۔ اس وقت تو مٹی کا ذرہ ذرہ پانی کو پکارتا ہے۔ اس وقت اگر بارش چند روز زیادہ برستی ہے تو کیا ہوا؟ یہ تو اور اچھا ہے۔ کیوں کہ خشک سالی کے باعث زمین میں موجود پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے اور صحراؤں میں پانی کنویں خشک ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قلت آب کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر کڑوے ہوجاتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے جن علاقوں میں اس بار بارش معمول سے زیادہ ہوئی ہے وہ علاقے تو پیاسے تھے۔ اس لیے ان پر جتنا پانی برسا وہ بھی کم تھا۔ مگر حکومتی اور انتظامی نااہلی کے باعث جب ہم نے بارش کے ریلوں میں لوگوں کے گھروں اور ان کے سامان اور مویشیوں کو بہتے ہوئے دیکھا تو ہم نے خدا سے یہ دعا ماںگی کی کہ مالک! اب بس کر۔ اگر ہمارے حکمران اچھے ہوتے ۔ اگر ہمارا انتظامی ڈھانچہ بہتر ہوتا،اگر ہمارے ادارے فعال ہوتے تو ہم یہ دعا ہرگز نہ مانگتے۔ کیوں کہ صاف اور میٹھا پانی تو صحراؤں اور میدانوں کے لیے امرت ہوا کرتا ہے۔ امرت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ مگر جب سماج کا انتظامی سسٹم ناکارہ ہو جاتا ہے تب ہمارے پاس سوائے دکھ درد کے اور کچھ نہیں رہتا۔ کیا اس سے بڑا درد اور کوئی ہوسکتا ہے جب رحمت زحمت بن جائے؟ رحمت کا زحمت بننا بہت تکلیف دیتا ہے۔ ہمارے لوگ بلکہ ہم خود اس تکلیف سے گذرتے رہتے ہیں۔ سندھ کے چھوٹے شہروں دادو، مورو، کندھ کوٹ وغیرہ کا کیا حال ہوتا ہوگا جب ہم کراچی کے پوش علاقوں میں رہنے والے رات کی بارش کے بعد صبح کو تیار ہوکر دفتر کی طرف نکلتے ہیں تو ہمیں اپنی گاڑیاں پانی میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔ کیا یہ منظر کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب دیتا ہے؟ پانی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ پانی تو زندگی ہے۔ اور ہم کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ صرف ہمارے ملک میں بارش نہیں ہوتی۔ ہمارا ملک تو دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاںبارش کم ہوا کرتی ہے۔ دنیا میں ایسے بہت سارے ممالک ہیں جہاں بارش بہت عام سی بات ہے۔ جہاں بارش لوگوں کی زندگی کا حصہ ہے۔ وہ جب بھی گھر سے نکلتے ہیں چھتری لیکر نکلتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو معلوم ہوا کرتا ہے کہ بارش تو کبھی بھی اور کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ مگر وہاں لوگ بارش کے باعث ہنگامی حالات کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کے لیے بارش عام سی بات ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ وہاں بارش کے دوراں اور خاص طور پر بارش کے بعد پانی جمع نہیں ہوجاتا۔ وہاں بارش شہری سیلاب کا سبب نہیں بنتی۔ وہاں بارش ہوتی رہتی ہے اور پانی خارج ہوتا رہتا ہے۔ یہ عام سے بات ہے۔ وہاں پر حکمران ہاتھوں کے اشاروں سے یہ نہیں بتاتے کہ’’ اسلام آباد ایسا ہے اور لاہور ایسا ہے اور کراچی ایسا ہے۔ اس لیے جب بارش ہوتا ہے تو پانی ہوتا ہے اور جب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی ہوتا ہے‘‘ سندھ میں گذشتہ چودہ برسوں سے اس پارٹی کی حکومت ہے جس کا چیئرمین بقول عمران خان بارش کے بارے میں اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آئن سٹائن کی روح کو تکلیف دیتا ہے۔ اس حکومت کے نااہل انتظامی سرشتے کے باعث اس بار سندھ میں بارش کے باعث زندگی ڈبکیاں کھانے لگی ہے اور لوگ چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ہمیں بچایا جائے۔ مگر ان کو بچانے والی حکومت کے کرتے دھرتے اسلام آباد کی سیاسی شطرنج میں مصروف ہیں۔ ان کے لیے سیاست ایک گیم ہے۔ مگر بھوکے لوگ تماشہ بھی انجوائے نہیں کرسکتے۔ کاش! ہمارے سیاستدانوں کا کتابوں سے بھی تعلق ہوتا۔اگر ان کا ذرا سا بھی تعلق کتاب اور قلم سے ہوتا تو وہ جان سکتے کہ حکمران ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ سیاست کو کھیل بنانے والے حکمران ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کے اعمال کی سزا عوام کے کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت سندھ بہت زیادہ تکلیف کا شکار ہے۔ سندھ میں بارش کے باعث تباہی کے مناظر ہیں۔ یہ سب ہرگز نہ ہوتا اگر سندھ میں لینڈ مافیا کے باعث نکاسی آب کی فطری گذرگاہوں پر قبضہ نہ ہوتا۔ جب لینڈ مافیا کو حکمرانوں کا آشیرواد حاصل ہو تو پھر عام سڑکوں پر نہیں بلکہ پکی سڑکوں پر بھی پلازے کھڑے کرسکتے ہیں۔ سندھ میں لینڈ مافیا کے باعث رحمت زحمت میں تبدیل ہوئی اور ہم صرف دیکھتے رہے۔