نغمے تھے جو ہوائوں میں درد کی لے میں ڈھل گئے ایک ہی پل میں کیا ہوا سارے ہی خواب جل گئے کس کرب اور اذیت میںاس وقت پاکستانی ہیں کہ رحیم یار خاں کی ٹرین میں لگنے والی آگ 72پیاروں کو کوئلہ کر گئی اور دیکھنے والوں کی آنکھوں سے گزرتی ہوئی دل تک اتر گئی۔ کوئی اس پر ماتم کرے یا نوحہ لکھے۔ دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک۔ یہ شعلے ہمارے دلوں میں جلتے رہیں گے۔ نظر سوئے آسمان اٹھتی ہے کہ اے پروردگار تیری تو ہی جانتا ہے ہم خاک زادے اور کیا کر سکتے ہیں کہ التجا کریں کہ ان شہیدوں کے لواحقین کو چین اور اطمینان عطا کر۔ کتنی آنکھیں اپنے پیاروں کی منتظر ہوتی ہیں اور مسافر بھی گھر واپسی کے لئے کتنے پریقین ہوتے ہیں۔ کس کو معلوم ہوتا ہے کہ جب پنچھی لوٹ کر نہیں آتے کہیں اور سدھار جاتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اجل ایک حقیقت ہے مگر اس کا یہ رنگ دیکھ کر انسان دل تھام لیتا ہے۔ رحیم یار خاں کے اس اندوہناک حادثے میں 74لوگ شہید ہوئے اور کئی زخمی ہوئے‘ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے جلتی ہوئی ٹرین سے باہر چھلانگیں لگا دیں۔ سوشل میڈیا پہ صبح ہی کلپس آنے لگے اور دل دہلانے لگے کچھ سنگ دل کہ نہ جانے کیا سوچ کر جلنے والوں پر دائرے کھینچ کر دکھا رہے تھے۔ حادثے میں شدت کیوں پیدا کی جاتی ہے۔ حادثہ تو ہو گیا مگر ہمارے سوچنے کی بات تو یہ ہونی چاہیے کہ اس میں ہم کیسے مددگار ہو سکتے ہیں۔ پھر محکمہ ریلوے کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہاں پہنچیں اور ان بے چارے لقمہ اجل بننے والوں کو ہسپتالوں تک پہنچائیں اور لواحقین کو پرسہ دیں۔ یقینا سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آگ آخر کیسے لگی۔ فوراً ہی بات تبلیغی جماعت پر ڈال دی گئی کہ وہی رائے ونڈ جا رہے تھے اور ان کا گیس سلنڈر پھٹ گیا اور گاڑی کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا۔ یہ بتایا گیا کہ چولہے پر پہلے کھانا تیار کیا گیا اور پھروہ شخص چائے بنانے لگا تو باہر سے آئی تیز ہوا نے آگ پکڑ لی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا واقعتاً ایسے ٹرین میں چولہا جلا کر چائے بنائی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ اگر اس کو سچ مان لیا جائے تو گاڑی میں سلنڈر لانے کی اجازت کس نے دی۔ جلتے چولہے کو دیکھ کر بھی کسی نے منع نہیں کیا۔ دو عینی شاہدوں کو میں نے سنا تو وہ ایک الگ کہانی بیان کر رے تھے جو حقیقت کا رنگ لے ہوئے تھی کہ عملے کو بتایا گیا کہ بزنس کلاس کے اندر بدبو آ رہی ہے کہ اسے سی کی گیس لیک ہو رہی ہے اور دوسری بات کہ وہاں لگا ہوا پنکھا سپارک کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے والے اپنی نااہلی اور غفلت کو چھپانے کے لئے الزام تبلیغی جماعت کے لوگوں پر لگا رہے ہیں۔ شیخ رشید کے استعفیٰ کا مطالبہ اس کثرت سے سوشل میڈیا پر آیا کہ حیرت ہونے لگی۔ شاید لوگ اس لئے بھی پہلے سے بھرے بیٹھے تھے کہ شیخ رشید جب سے آئے حادثات معمول بن گئے ہیں اور حادثات ریکارڈ بن چکے۔ شیخ رشید کا بیان پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ وہ بجائے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کم از کم معافی ہی مانگ لیتے مگر انہوں نے فرمایا کہ ’’سب سے کم حادثے میرے دور میں ہوئے‘‘ مجھے وزیر اعظم کا بیان یاد آیا’’کہ سب سے کم مہنگائی میری حکومت کے پہلے سال میں ہوئی۔ اس طرح کا انداز تو ’’سب سے کم‘‘ والا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ میں موصوف کی غیر سنجیدہ انداز گفتگو کا یہاں تذکرہ نہیں کروں گا کہ یہ محل نہیں مگر مجھے کہنے دیجیے کہ انہیں اپنے محکمے کو وقت دینا چاہیے مگر جب بھی انہیں دیکھیں وہ سیاستدانوں کی پھبتیاں کس رہے ہوتے ہیں‘ پیشین گوئیاں فرما رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات بالکل بے مقصد اور لایعنی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ سنا ہے وہ اپنے محکمے میں بھی کام کرنے والوں پر فقرے کستے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی اور دور میں حادثہ ہوا کہ یہ وزیر تھے کہنے لگے’’میں کیوں استعفیٰ دوں کیا گاڑی میں چلا رہا تھا‘‘ اب بتائیے کہ باہر کے ملکوں میں کتنے واقعات ہیں کہ محکمے کے سربراہ نے ایسی صورت حال میں استعفیٰ دیا۔ بات یہ ہے کہ یہ کس کا کام ہے گاڑیوں کا باقاعدہ چیک اپ اب یعنی اوور ہالنگ ورکشاپ میں گل ملازم اس کے سرکٹ وغیرہ چیک کریں۔ ویسے بھی ریلوے کا انفراسٹرکچر پرانا ہو چکا ہے۔ اسے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے مگر ہو کیا رہا ہے کہ چند بوگیاں لگا کر نئی ٹرینیں چلا کر کارکردگی دکھائی جا رہی ہے حالانکہ جو کچھ موجود ہے اس کی حالت بہتر کرنا زیادہ اچھا عمل ہے۔ بوگیوں کا مسئلہ بھی ہے ضرورت پڑنے پر دوسری ٹرینوں سے اتار لی جاتی ہیں اور بعض اوقات تو انجن بدلا جاتا ہے۔ خیر یہ باتیں شاید میرے کرنے کی نہیں مگر یہ ضرور کہوں گا کہ محکمے کو سیاسی وابستگیوں سے پاک کیا جائے۔ پولیس اور پی آئی اے کی طرح ریلوے کا بھی ستیا ناس سیاسی لوگوں نے کیا۔ کون نہیں جانتا کہ ریلوے میں سیاسی لوگ ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں۔ سفارشوں پر آنے والے تو افسروں کے کنٹرول میں بھی نہیں آئے۔ کتنے لوگ تھے جو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے تھے۔ کچھ دادا گیر بنے ہوئے تھے۔ کچھ وہ بھی تھے جو اپنے ماتحتوں کو فارغ کر کے ان سے آدھی تنخواہ وصول کرتے۔ ریلوے کے رہائشیوں نے گھروں کے پورشن کرائے پر دے رکھے تھے۔ اس کی زمینوں پر قبضے کئے اور کرائے گئے جیسے کوئی والی وارث نہیں‘ شاید ہے بھی نہیں اور تواور پام کلب کی زمین جو اربوں روپے کی ہے ہتھیائی گئی۔ یہ لوگ حقیقت میں وطن کے دشمن ہیں۔ طاقتور نہ صرف محکموں کو لوٹتے ہیں بلکہ اس کے سارے نظام ہی کو برباد کر دیتے ہیں۔ عثمان بزدار اچھے لگے کہ اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر جائے حادثہ پر پہنچے۔ شیخ صاحب نے شہدا کو 15اور زخمیوں کو 5,5لاکھ فی کس کا اعلان کیا ہے مگر یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں یہ پیسے حکومت کے خزانے سے جائیں گے لوگ خون کے عطیات دے رہے ہیں لوگوں میں ہمیشہ بہت جذبہ رہا ہے۔ آخر میں ذرا سا ذکر ایک ویڈیو کلپ کا۔ نظر نواز ہوئی‘ دل خوش ہو گیا یہ ویڈیو آصف محمود نے لگائی تھی کہ پہلی مرتبہ کسی ایمبولینس کے لئے آزادی مارچ کے جلوس نے جگہ بنا کر دی گئی واقعتاً مولانا اور ان کے حامیوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر یہ رویہ ان کی تہذیب اور خدا خوفی کو ظاہر کرتا ہے۔ سابقہ ادوار کے جلوس سب کو یاد ہیں کہ پھنسی ہوئی ایمبولینس میں اکثر لوگ جان ہار جاتے مگر کوئی راستہ نہ ملتا تو پھر اس کلچر کو کیوں نہ عام کیا جائے کہ ایمبولینس دیکھ کر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ جلوس کی رپورٹس تو ساتھ ساتھ آ رہی ہیں مگر ایمبولینس والی ویڈیو نے بہت متاثر کیا۔ اصل میں یہی ہمدردی ‘ محبت‘ ایثار اور برداشت سیاستدانوں کو اپنے سپورٹرز میں پیدا کرنی چاہیے۔ بنیادی طور پر عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ حکمرانوں میں ان کے لئے دلجوئی اور مدد کاجذبہ پیدا ہو۔ ایک تو وہ آئے دن مہنگائی کرتے ہیں کہ آج ہی پٹرول کی قیمتیں ایک روپے فی لٹر بڑھی ہے پھر کہتے ہیں عام بندے کو اس سے فرق نہیں پڑے گا: درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں