سیف صاحب نے کہا تھا: مرنے والوں پر حیرتیں کیسی موت آسان ہو گئی ہو گی آج مجھے ایک ایسی ہی موت پر کالم لکھناہے کہ جس نے ہمارے دوست رائو ظفر کو آناً فاناً آ لیا۔ کیا خوبصورت شخص تھا وہ مسکراتا چہرہ‘ ہنستی ہوئی آنکھیں اور ادب آداب سے آشنا گفتگو۔ وہ میرا کلاس فیلو تھا۔ نمایاں طالب علم۔ خالد محمود اور سہیل احمد وڑائچ بھی میرے کلاس فیلو تھے۔ اس نے اوکاڑہ سے آ کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں داخلہ لیا تھا۔ اس میں اضافی خوبی یہ تھی کہ وہ ادب سے بھی وابستہ تھا۔ معروف استاد اور اسماعیل بھٹی جو ہمارے شعبہ انگریزی کے چیئرمین بھی تھے اور پنجابی شعری مجموعہ ’’تانگاں دی لو‘‘ کے خالق‘ اولڈ کیمپس کے کیفے ٹیریا میں ایک ادبی حلقہ قائم کئے ہوئے تھے جس کے جنرل سیکرٹری اور ناظم رائو ظفر اقبال تھے۔ یونیورسٹی کی فضا اس زمانے کچھ زیادہ ہی اچھی تھی۔ فیصل آڈیٹوریم میں آئے دن مشاعرے ہوتے تھے۔ اولڈ کیمپس حلقہ میں بھی باقاعدہ اتوار مغرب کے بعد اجلاس ہوتا تھا۔ امجد الطاف جیسے خوش باش لوگ اس میں آتے۔ کئی سینئر آتے اور جونیئر بھی مثلاً یونس بٹ‘ ناہید شاہد اور ازکار ازہر درانی جس کا معروف شعر آپ نے بھی سن رکھا ہو گا: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی ظاہر ہے ایک نہ ایک روز سبکو جانا ہے یا یوں کہیں کہ جو آتا ہے وہ جاتا بھی ہے مگر بعض لوگ جن کے ساتھ آپ کی ایسی وابستگی ہے کہ اکٹھے کلاس میں اٹھتے بیٹھتے‘ ادبی محافل میں ملاقات اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ‘ ایسے لوگوں کا داغ مفارقت دینا سچ مچ محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے انسان کا اپنا ایک حصہ متاثر ہو گیا ہو ہم آپ کے اردگرد ایک خلا سا پیدا کر جاتے ہیں۔ وہی بات کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘ کئی مرتبہ پروگرام بنا کہ اسے مل کر آیا جائے کہ اس نے جلدہی20 گریڈ حاصل کیا تھا اور سائنس کالج لاہور میں شعبہ انگریزی کے چیئرمین کے طور پر کام کر رہا تھا کہ اجل نے اسے آن لیا۔ ابھی اس کا ایک سال باقی تھا ایک مرتبہ وہ اپنے طلباء کے ساتھ مجھ سے ملنے بھی آیا اور اسی طرح تسلسل کے ساتھ اس کا مسکرانا اور ادب کی باتیں پھر مجھے کہنے لگا کہ اوکاڑہ میں ایک ہوٹل کا افتتاح مجھ سے کروانا ہے۔ میں نے اس سے کہا یار رائو! ایک ہوٹل کا افتتاح ایک شاعر کرتے ہوئے اچھا نہیں لگے گا‘ بہرحال اس کی اپنی محبت تھی۔ کسی نے مجھے بتایا کہ رائو ظفر اقبال انگریزی اسائنئمنٹس اردو میں لکھ کر یاد کرتا ہے۔ یہ بات میرے لئے حیرت ناک ہی نہیں ناقابل یقین تھی کہ ایسے لکھنا’ شیکسپئر واز اے گریٹ پوئٹ‘‘ میں نے بتانے والے سے شرط لگا لی اور پھر میں یہ شرط باقاعدہ ہار گیا کہ جب رائو کا رجسٹرمیرے سامنے تھا اور ساری اسائنمنٹس اردو میں لکھی ہوئی تھیں میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ بات گینز بک آف ورلڈریکارڈ میں آنے کے قابل تھی۔ میں نے رائو سے پوچھا تو کہنے لگا میں مقرر ہوں میں نے کہا سپیلنگز کا کیا کرتے ہو کہنے لگا وہ بھی ہو ہی جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کا تعلق اسلامی جمعیت سے تھا مگر وہ ہلکا ہلکا رومانس بھی رکھتا تھا اور بنیادی طور پر فنکار تھا۔ کئی معاملات میں جماعتیوںکی طرح بہت سخت گیر نہیں بلکہ صلح جو تھا پھر ایک بات یہ بھی ہوئی کہ اس کی شادی ہماری ایک کلاس فیلو سے ہوئی ویسے یہ شادی شاید پسند کی تھی۔ مگر خالد محمود نے بتایا کہ یہ ارینج میرج تھی اگر ایسا ہے تو یہ اتفاق اچھا ہے ظاہر ہے اپنی کلاس فیلو سے شادی ہو جانا اتفاق ہی نہیں حسن اتفاق بھی ہے۔ رائو ظفر اقبال پروفیسرز کے حلقوں میں اچھی شہرت رکھتا تھا۔ مثلاً کل اسلامیہ کالج کے پرنسپل رانا اسلم صاحب کا فون آیا کہ میں اوکاڑہ ان کے جنازہ پر ساتھ چلوں مگر ضروری کام کی وجہ سے نہ جا سکا۔ سائنس کالج سے باقاعدہ ایک بس ان کے جنازہ پر گئی ایک اور بات یہ کہ وہ بہت بھلے مانس اور دکھی لوگوں کا خیال رکھنے والے تھے ضرورت مندوں کی بہت مدد کرتے تھے: جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں فیس بک پر اس کے شاگردوں نے اس کی وہی تصویر لگا رکھی تھی جس میں مسکرا رہاہے اور آنکھوں میں ذہین چمک نظر آ رہی ہے میں تو ایک لمحے کے پکڑا سا گیا۔ پھر یہ خبر پھیلتی گئی اورہمیں اداس کرتی گئی وہ اوکاڑہ میں کیڈک کالج کے پرنسپل بھی رہے اور انتظامی امور جاننے کے باعث کچھ عہدوں پر بھی رہے پھر عصمت اللہ شاہ نے بتایا کہ وہ سائنس کالج آ گئے ہیں۔ اوکاڑہ کے ادبی حلقوں سے ان کا تعلق بہر طور رہا اور وہاں وہ نوجوان ادیبوں شاعروں کی رہنمائی کرتے رہے میں سوچتا ہوں کہ واقعتاً زندگی کیا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا‘ ایسے ہی جیسے صبح ہوئی ہے اور پھر شام ہو جاتی ہے کہ سورج ڈھل کر مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ یہ زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے: اپنی مٹھی میں کوئی بھی لمحہ نہیں اور کہنے کو ہم کتنے برسوں جیسے ہائے رائو ظفر وہ جب آنکھیں مٹکا کر باتیں کرتا تو زندگی اس کے اندر جذبے کی صورت نظر آتی۔ طلباء سے محبت کرنے والا ایک ہر دلعزیز استاد۔ وہ سارا منظر میری آنکھوں میں گھوم رہاہے کہ ہم رضی عابدی‘ افتخار احمد‘ نوید شہزاد اور میڈم شائستہ سراج جیسے بڑے اساتذہ کے پاس بیٹھتے ان سے سیکھتے۔ کیا زمانہ تھا سرما کی دھوپ میں باہر جا بیٹھتا۔ کیسا سنہرا دور تھا اور کیسے روشن دن تھے کسی نے آ کر کہا کہ میڈیم آج کلاسیں لے گی تو کہہ دینا: سردیوں کی اس دھوپ میں جاناں کون کلاسیں پڑھتا ہے کبھی کبھی سب کچھ پرچھائیں کی طرح لگتا ہے کہ ہم اپنا سارا کیرئر ختم کر کے ریٹائر بھی ہو چکے۔ رائو ظفر!اب ہم آپ کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ’’تری لحد پہ کھلیں جاواداں گلاب کے پھول ۔ دو شعروں کے ساتھ اپنے قارئین سے اجازت: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں