موسمِ سرما کے یہ ایام شادی بیاہ کے اہتمام وانعقاد کے لیے ’’ہر اعتبار‘‘ سے بڑے موزوں جانے جاتے ہیں ، ہمارے ہاں کی شادی ،بیاہ کے تقریباتی پھیلائو میں ایک اچھا اضافہ مساجد بلکہ بادشاہی مسجد میں "رسمِ نکاح"کے انعقاد کا ہے ،ایسی ہی ایک تقریب میں محترم مجیب الرحمن شامی صاحب، چوہدری خادم حسین صاحب کے عزیز کی "رسمِ نکاح"میں شرکت کے لیے بادشاہی مسجد میں تشریف فرما ہوئے ،تو’’ نکاحیہ تقریب ‘‘کی گہما گہمی اور رونق سے محظوظ ہوئے اور مساجد میں نکاح کی اس روایت کی تحسین اس "مشاہدہ"کے ساتھ فرمائی کہ’’ مزا تو تب ہے کہ پھر رخصتی بھی یہیں سے ہو جائے ۔‘‘ بہر حال یہ ان کی درمندی اور دلسوزی ہے جس کی طرف بالآخر ہماری سوسائٹی کو آنا ہی ہوگا ۔برصغیر کے ہندی کلچر میں شادی ،بیاہ کے بکثرت رسم و رواج کے سبب ۔۔۔۔۔انسانی اور معاشرتی زندگی کا یہ اہم اور بنیادی شعبہ ازحد پچیدگیوں کا شکار ہو گیا ،عرب کے اندر شادی کے امور از حد سادہ تھے ،براہِ راست شادی کا پیغام بھیج دینا، بالکل بھی معیوب نہ تھا ، بلکہ اس "بندھن"کی اہمیت کے پیش نظر ،یہ عہدجسے ’’زمانہ جاہلیت ‘‘کہا جاتا ہے ،کی زیرک مائیں ، اپنی بچیوں کو ان کی رخصتی کے وقت جو پندونصـائح کر تیں ، انہیں پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے ۔آج "نفسیات"اپنے عروج پر ہے ،لوگ مختلف خانگی اور ذاتی مسائل سے عہدہ برأ ہونے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے ہیں ،یہاں پر ایک عرب ماں کے وہ نصائح، جو اس نے ، اپنی بیٹی کو بوقتِ رخصت کیے، جس سے ایک بدو عورت کی دِقّت نظر کا اندازہ لگائیے ،اور اسے آج کے تناظر میں پرکھیے ، اور موجودہ خاندانی نظا م کی شکست و ریخت اور میاںبیوی کی ناچاقی اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح …اورپھر ہم اس بیگانگی، کشیدگی اور دوری کا تدارک … اور پھر اکیلے اپنائیت ،محبت اور الفت میںتبدیل کر نے کا اسلوب ملاحظہ ہو۔۔ ریاست کندہ کے بادشاہ حارث بن عمرو نے ، ایک عرب سردارعوف بن محلم کی بیٹی سے شادی کی ، ’’رخصتی ‘‘کے وقت ماں نے اپنی بیٹی سے کہا۔اَیْ بُنَیَّہ! ’’اے میری پیاری بیٹی!‘‘ ’’اگر وصیت کو اس لیے ترک کردینا روا ہوتا ،کہ جس کو وصیت کی جارہی ہے، وہ خود عقل مند اور زیرک ہے، تو میں تجھے وصیت نہ کرتی ۔‘‘ ’’لیکن وصیت غافل کے لیے یادداشت اور عقل مند کے لیے ایک ضرورت ہے۔‘‘ ’’ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے اس لیے مستغنی ہوسکتی کہ اس کے والدین بڑے دولت مند ہیں اور وہ اُسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں تو تُو سب سے زیادہ اس بات کی مستحق تھی کہ اپنے خاوند سے مستغنی ہو جائے ۔‘‘ ’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور مرد،عورتوں کے لیے ‘‘ یا بنیۃ ’’اے میری نورِ نظر! آج تو اس فضا کو الوداع کہہ رہی ہے جس میں تو پیدا ہوئی ۔‘‘ ’’آج تو اس نشیمن کو پیچھے چھوڑرہی ہے، جس میں تو نے نشو ونما پائی ۔‘‘ ’’ایک ایسے آشیانے کی طرف جارہی ہے جسے تو نہیں جانتی ۔‘‘ ’’اور ایک ایسے ساتھ کی طرف کوچ کررہی ہے جس کو تو نہیں پہچانتی ۔‘‘ ’’پس وہ تجھے اپنے نکاح میںلینے سے ،تیرا نگہبان اورمالک بن گیاہے۔‘‘ ’’تو اس کے لیے فرمانبردار کنیز بن جا ، وہ تیرا وفادار غلام بن جائے گا۔‘‘ ’’اے میری لخت ِجگر ! اپنی ماں سے دس باتیں یاد کرلے ،یہ تیرے لیے قیمتی سرمایہ اور مفید یادداشت ثابت ہوں گی ۔‘‘ ’’رفاقت …قناعت سے دائمی بنے گی اور باہمی میل جول اس کی بات سننے اور اس کا حکم بجا لانے سے پُر مسرت ہوگا۔‘‘ ’’جہاں جہاں اس کی نگاہ پڑتی ہے، ان جگہوں کا خاص خیال رکھ اور جہا ں جہاں اس کی ناک سونگھ سکتی ہے اس کے بارے میںمحتاط رہ، تاکہ اس کی نگاہ تیرے جسم اور لباس کے کسی ایسے حصہ پرنہ پڑے اور جو بدنما اور قبیح ہو اور تجھ سے اُسے بدبو، نہ آئے بلکہ ہمیشہ خوشبو سونگھے ۔ ’’سرمہ حُسن کی افزائش کا بہترین ذریعہ ہے اورپانی گمشدہ خوشبو سے بہت زیادہ پاکیزہ ہے ۔‘‘ ’’اس کے کھانے کے وقت کا خاص خیال رکھنا اور جب وہ سوئے تو اس کے آرام میں مخل نہ ہونا ،کیونکہ بھوک کی حرارت شعلہ بن جایا کرتی ہے اور نیند میںخلل اندازی بغض کاباعث بن جاتی ہے۔‘‘ ’’اس کے گھر اور مال کی حفاظت کرنا اور اس کی ذات کی بھی ،اس کے نوکروںکا اور اس کے کنبے کا خیال رکھنا ‘‘ ’’اس کے راز کو افشامت کرنا ،اس کی نافرمانی سے گریز کرنا ، اگر تو اس کے راز کو فاش کردے گی تو اس کے غصے سے محفوظ نہیں رہ سکے گی اور اگر تو اس کے حکم کی نافرمانی کرے گی تو اس کے سینہ میں تیرے بارے میںغیظ وغضب بھر جائے گا۔‘‘ ’’جب وہ غمزدہ اور افسر دہ ہو،تو خوشی کے اظہار سے اجتناب کرنا اور جب وہ شاداں وفرحاں ہو، تو اس کے سامنے منہ بسور کرمت بیٹھنا ۔پہلی خصلت آدابِ زوجیت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے اور دوسری خصلت دل کو مکدر کردینے والی ہے۔‘‘ ’’جتنا تم سے ہوسکے اس کی تعظیم بجا لا نا وہ اسی قدر تمہارا احترام کرے گا۔‘‘ ’’جس قدر تم اس کی ہم نوا ہوگی، اُسی قدر ہی وہ تمہیں اپنا رفیق حیات بنائے رکھے گا۔‘‘ ’’اچھی طرح جان لو ! تم جس چیز کو پسند کرتی ہو،اُسے نہیں پاسکتی، جب تک تم اس کی رضا کو اپنی رضا پر اورا س کی خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح نہ دو، خواہ وہ بات تمہیں پسند ہویاناپسند ۔‘‘ واللہ یخیر لک ’’اے بیٹی ! اللہ تعالیٰ تیرا بھلا کرے ۔‘‘