کاروانِ کربلا کی وہ باکمال و بے مثال عظیم سپہ سالار خاتون مقدس جن کا نام آتے ہی نگاہیں بصد عجز و سلامی جھک جاتی ہیں، زبان صلوٰۃ و سلام کے نغمے الاپنے لگتی ہے ، قلب و ذہن میں باطل کے خلاف ایک بغاوت جاگ اٹھتی ہے اور آوازِ حق بلند کرنے میں ایک فخر اور سرشارگی کے جذبات موجزن ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو! کہ یہ ذکرِ خیر سفیرۂ کربلا ، شہزادیٔ مرتضیٰ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا ہے جنھیں تاریخ ثانیہ ٔ زہرا سلام اللہ علیہا کے لقب سے بھی جانتی ہے ۔سفرِ کربلا ہو یا میدانِ کربلا، معرکہ کربلا کا دل خراش اور خون آشام منظر ہو یا اسیرانِ کربلا کی کوفہ و شام اور دمشق روانگی کی داستاں،ہر موڑ پر ہمیں آپ سلام اللہ علیہا کا مثالی کردار نظر آتا ہے ۔ ہر مقام پر آپ ہمیں سیدنا امامِ حسین علیہ السلام کہ شانہ بشانہ دینِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافظت میں سر بکف نظر آتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر جب امامِ عالی مقام علیہ السلام نے سوئے کربلا رخت ِ سفر باندھا تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اپنے شوہر کی اجازت سے سیدنا امامِ حسین علیہ السلام کے ہمراہ عازمِ سفر ہوئیں۔گو آپ سلام اللہ علیہا اس حقیقت سے بخوبی واقف تھیں کہ امامِ عالی مقام علیہ السلام کا سفرِ کربلا اُن فرامین ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت وصداقت کا ایک باب ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا امامِ حسین علیہ السلام کی شہادت کے حوالے سے فرمائے تھے ۔جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے جبرئیل امین علیہ السلام نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین(علیہ السلام ) میرے بعد زمینِ طف میں قتل کر دیا جائے گا اور جبرئیل امین علیہ السلام میرے پاس (اس زمین کی) یہ مٹی لائے ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ یہی مٹی(میرے پیارے شہزادے سیدنا امام) حسین( علیہ السلام) کا مدفن ہے ۔‘‘ زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شہادتِ حسین علیہ السلام کی خبر اس بات کا پیغام تھی کہ کربلا سے واپسی پر امامِ عالی مقام علیہ السلام کاروانِ کربلا کے ساتھ نہ ہوں گے ۔ گویا یہ سفر ابتلا و آزمائش اور مصائب و آلام کا سفر تھا لیکن قربان جائیں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی جرأت اور عزم و استقلال پر کہ آپ سلام اللہ علیہا نے نہ صرف برادرِ گرامی کے ساتھ سوئے کربل جانے کا ارادہ فرمایا بلکہ نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی محافظت اور سر بلندی کی خاطر اپنے دو معصوم شہزادوں سیدنا عون و سیدنا محمد سلام اللہ علیہما کو بھی شاملِ سفر کیا اور میدانِ کربلا میں جب جانثارانِ حسین علیہم السلام اپنی جانوں کے نذرانے سیدنا امامِ حسین علیہ السلام کے مقدس مشن کی تکمیل کے لیے لوٹا رہے تھے تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے دونوں شہزادوں کو بھی پیش کیا۔ معرکہ حق و باطل اور مبارزت خیرو شر میں خاندانِ نبوت علیہم السلام کے تمام جانثاران ایک ایک کر کے جامِ شہادت نوش کر چکے تھے ۔ یہ وہ لمحات تھے جب گلشنِ زہر اسلام اللہ علیہا کے تمام پھول ریگ زارِ کربلا میں خاک و خون میں لت پت تھے ۔ان دل سوز حالات میں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے امامِ عالی مقام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام تھامی اور بھائی کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کارزارِ کربلا روانہ کیا۔ کربلا کے اس تپتے ریگ زار میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جورو جفا اور ظلم و ستم کی انتہا کی گئی۔ جس پر زمین و آسمان نے خون کے آنسو بہائے اور کائنات پر تاریکی چھا گئی۔ان حالات میں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے جرأت و بہادری اور عزم و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور انتہائی جواں مردی کے ساتھ قافلہ حسینی کی مستورات، بچوں اور بیمارِ کربلا شہزادۂ امام عالی مقام سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کی دیکھ بھال اور محافظت کا فریضہ سر انجام دیا۔فصاحت و بلاغت کی عظیم دولت و نعمت سے بہریاب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا تاریخِ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔آپ سلام اللہ علیہا نے میدانِ کرب و بلا، سفرِ کوفہ و شام اور تادمِ حیات عزم و استقلال اور بہادری کی ایک لازوال داستاں رقم کی۔ آپ سلام اللہ علیہا کی آنکھوں نے وہ دل سوز مناظر دیکھے جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے ۔مگر آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے فرضِ منصبی کو نبھاتے ہوئے انقلابِ کربلا کے پرچم کو سر بلند کیا۔ آپ سلام اللہ علیہا حق و باطل، سچ اور جھوٹ، ایمان ا ور کفر اور عدل ا ور ظلم کے درمیان حدِ فاصل کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ’’سیدہ زینب سلام اللہ علیہا‘‘ فقط ایک ماں، بہن یا بیٹی کے کردار کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے کردار کا نام ہے جس نے لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دینِ حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے ۔آپ سلام اللہ علیہا کی شان، فضائل و مناقب اور آپ سلام اللہ علیہا کے مقام و مرتبہ کو بیان کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔ سیدنا امامِ حسین علیہ السلام نے دینِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بقاء و دوام کے لیے اپنے خون سے میدانِ کرب و بلا میں جو داستاں رقم کی اسے تا قیامِ قیامت دوام و ہمیشگی بخشنے کا سہرا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے سر جاتا ہے ۔آج اسلام کی جو متاع جمہوری قدروں، آزادی اظہار، جاہ حشمت اور نفاذِ شریعت کی مسلسل جدوجہد کی صورت میں نظر آرہی ہے یہ سب فرزند ِ علی المرتضیٰ سیدنا امامِ حسین علیہ السلام اور دختر ِشیر خدا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی مرہونِ منت ہے ۔