مزاح سے مزاج کی فریکوئنسی کب ملی؟ کیوں ملی؟ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس بستی میں مسلسل پرواز کرنے کا لطف بہت آیا۔ جہاں تک مدعی کا اپنا حافظہ کا م کرتا ہے، اس چلبلے شعبے سے دل چسپی کی کئی صورتوں نے بچپن ہی میں ذہن و دل کو گدگدانا شروع کر دیا تھا۔ اس سے تعلق کا باقاعدہ آغاز کالجی زندگی میں مزاح کے شدید مطالعے سے ہوا۔ شدید اس لیے کہا ہے کہ اس زمانے میں کتاب حاصل کرنے کے لیے کالج لائبریری، دوست، فٹ پاتھیں، پرانی کتابوں کی دکانیں، لطیفوں والے کتابچے، مزاحیہ رسائل، سنجیدہ اخبارات کے خاص صفحات میں شایع ہونے والے غیر سنجیدہ چٹکلے، آنہ لائبریری، غرض یہ کہ کتاب تک رسائی کے لیے ’دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے‘ والی صورتِ حال تھی۔ اس شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیے کہ آج ہم اقرار کرتے ہیں کہ اپنے کالج کے شریف ترین اور آرام پسند لائبریرین کی زندگی میں سب سے زیادہ زہر ہم نے گھولا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ کہ کالج کے زمانے ہی میں پطرس سے یوسفی تک اور اکبر سے انور مسعود تک، سب کو اسی وارفتگی میں سُڑک ڈالا۔ یونیورسٹی میں پہنچے تو خود بھی ٹوں ٹاں کرنا شروع کر دیا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اورینٹل کالج کے شعبۂ اُردو میں داخلے کے بعد پہلے ہی ٹیوٹوریل پیریڈ (کہ جس کے انچارج نوجوان فخرالحق نوری تھے)میںجہاں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر عبیداللہ خاں ڈاکٹر تحسین فراقی، جیسے نابغے اور سالِ اول و دوم کی سو کے قریب الھڑ مٹیاروں کے شانہ بشانہ بیٹھے بیس پچیس مونچھ مروڑ (اس زمانے میں شعبۂ اُرود میں طلبہ و طالبات کا یہی تناسب تھا) جن میں ضیاء الحسن، قمر بودلہ، روحی بانو، عنبرین منیر،عنبرین صابر، جمیل احمد عدیل، حمیرا ارشاد، زاہدہ منظور، ممتاز نادر، تحسینہ عباس، ممتاز بیگم، نائلہ بٹ، ہما وائیں، جیسے تیکھے ناقدین بھی شامل تھے، کی موجودگی میں مجھ جیسے زندگی میں پہلی بار سٹیج کی شکل دیکھنے والے پینڈو (کہ جس کا روسٹم پر آنے سے پیشرہی گلا خشک اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں) کا ڈائس پہ آ کے اپنا مزاحیہ مضمون ’’آج جمعرات ہے‘‘ پڑھنا، انگریزی والے ینگ سیگل سے بھی دشوار مرحلہ تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب اس مضمون کے ایک جملے ’’اللہ کے نام پہ بابا‘‘ کی ادائیگی کے ساتھ ہی سامنے بیٹھی سعیدہ حفیظ (کلثوم نواز کی چھوٹی بہن، ناڈو خاں کی سالی،میاں صاحب کے وزیرِ اعظم بننے کے ساتھ ہی اس کے میاں کو برما کا سفیر بنا کے بھیج دیا گیا، میرے پیا گئے رنگون ) کی جانب سے ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک سکہ ڈائس کے اوپر آ کے گرا تو حواس کے ساتھ سِٹی بھی گم ہو گئی، ساتھ یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ مناسب وقت پہ سکہ پھینکنا ان کی خاندانی مہارت کا حصہ ہے… لیکن اگلے ہی جملے پہ بجنے والی تالیوں نے معاملہ سنبھال لیا۔بعد میں خواجہ صاحب کے حوصلہ افزا جملوں ، مضمون کی داد کے طور پر جناب سجاد باقر رضوی کی چائے کے کپ کی دعوت نے بھی بہت تقویت دی۔ باقر صاحب کی جانب سے مضمون کی بے حد تعریف اور دسمبر کی چھٹیوں میں ایسا ہی ایک مضمون لکھنے کی فرمائش نے اس میدان میں قدم جمانے میں معاونت کی۔ اس کے بعد کے دو سالوں میں شعبے کی کوئی تقریب ہمارے بغیر نہ ہوئی۔ ہم نے بھی اپنے سمیت دوستوںاور استادوں کے خوب خوب خاکے اڑائے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ’حلقۂ ادب‘ کا جوائنٹ سیکرٹری بنا دیا تو لاہور کے ادبی منظرنامے سے شناسائی ہونا شروع ہوئی۔ رسائل و جرائد میں چھپنا شروع ہوئے تو صاحبِ کتاب ہونے کی خواہش نے انگڑائی لی۔ لندن مقیم جناب مشتاق احمد یوسفی کا ’’بھگوڑا‘‘ کے عنوان سے خاکہ لکھا تو ان کا مسکراتا ہوا خط آیا، جوابی خط کے بعد کتاب کے فلیپ کی بھی ہامی بھر لی۔ ممتاز مفتی کے تابڑ توڑ خطوط نے تو سینہ پھلا دیا۔ مفتی جی کے ایسے جملے تو آج بھی بن پیے نشہ دینے اور ہواؤں میں اڑنے کے لیے کافی ہیں: ’’اشفاق وِرک! تم ایک بڑے مزاح نگار ہو، تمھیں چھوٹی بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ ’’تمھارے بے تکلف دوستوں کے خاکے پڑھ کے جی چاہتا ہے، کاش! مَیں بھی تمھارا دوست ہوتا!!!‘‘ الحمدللہ! ایم اے (محمد خالد اختر: شخصیت و فن) اور پی ایچ۔ڈی (اُردو نثر میں طنز و مزاح) کے مقالوں کے مزاح کے حوالے سے موضوعات کی بنا پر اس شعبے میں تحقیق اور پاک بھارت میں تخلیق ہونے والے مزاح کے بالا ستعیاب و بالدستیاب مطالعے کا کھُلا ڈُلا موقع ملا۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ آج وہ مقالہ کتابی صورت میں شایع ہو کے پاک بھارت کی آٹھ یونیورسٹیوں کے نصاب میںشامل ہے۔ گٹھلیوں کے دام یہ کہ مزاح کے حوالے سے کہیں کوئی کلی چٹکتی ہے، کوئی پُروا چلتی ہے، کوئی چنگاری پھوٹتی ہے تو اس کی مہک، لہک اور چمک مجھ تک ضرور پہنچتی ہے۔ اسی سلسلے میں موصول ہونے والے تازہ ترین پراگے میں سب سے پہلے مَیں جھنگ میں مقیم اپنے دوست ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا ذکر کرنا چاہوں گا، حال ہی میں جن کی ایک ہزار صفحات پر مشتمل شگفتہ آپ بیتی ’کھیلن کو مانگے چاند‘ موصول ہوئی ہے۔ اس میں قدم قدم ان کے لطیف اور خندہ اسلوب سے سامنا ہوتا ہے۔ اس کا پہلا حصہ کئی سال قبل وہ ’انوکھا لاڈلا‘ کے عنوان سے تحریر کر چکے ہیں اور ابھی وہ اس کا آخری حصہ ’کیسی انوکھی بات رے‘ کے عنوان سے لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسد محمد خاں کی اس نظم پہ پہلے بلقیس خانم نے قبضہ جمایا تھا لیکن اب تو لگتا ہے کہ یہ نظم شاعر اور مغنیہ سے زیادہ ڈاکٹر مگھیانہ پہ بیتی ہے۔ ایک طویل عرصے سے ڈاکٹر صاحب کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں نشتر ہے، ان کا کمال یہ ہے کہ وہ دونوں کے مناسب استعمال کے قرینے سے بہ خوبی واقف ہیں۔ (جاری)