مایا تہذیب کے زمانوں کے زمین کی گہرائی میں پوشیدہ ’’سنوتے‘‘ تالاب کے یخ بستہ پانیوں میں اترنا گویا ایک آبی خواب میں اترنا تھا۔ تالاب کے گرد اٹھتے گنبد نما حصار کی کچی دیواروں میں سے آبی خود رو بوٹے پھوٹ رہے تھے اور اس گنبد میں جو شگاف تھا اس میں سے دھوپ ایک روپہلی چادر کی صورت نیم تاریکی میں اترتی تھی اور اس کے ہمراہ ایک آبشار کے پانی تالاب کی سطح پر بلندی سے گرتے جاتے تھے اور سیاحوں کی آوازوں کی ایک گونج تھی جو ماحول کو عجب بے یقینی سے بھرتی تھی۔ زرد لائف جیکٹ پہنے میں گہرے پانیوں کی سطح پر ہچکولے لے رہا تھا اور میرے پانیوں میں معلق پائوں محسوس کر سکتے تھے کہ ان کے تلووں تلے ایک آبی گہرائی جانے کس پاتال تک چلی جاتی ہے۔ اس تالاب کے نیم تاریک زیر زمین ماحول یوں پانیوں میں معلق تیرتے پھرتے میرے بدن میں ایک ہیجان خیز سنسنی بھرتا تھا کہ یہ میری آوارہ حیات کے بڑے تجربوں میں بھی ایک انوکھا اور حیرت بھرا تجربہ تھا۔ جیسے فیئری میڈو میں آج سے شاید پینتیس برس پیشتر پہلی بار داخل ہونا، رتی گلی جھیل میں آج سے چونسٹھ برس پہلے برف کے راج ہنس تیرتے دیکھنا، شاہ گوری کی پہلی جھلک یا پھر پہلی محبت کی قربت کی نِمّی نِمّی آنچ… میں ہاتھ پائوں مارتا تالاب کے عین درمیان میں اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سورج کی روشنی کے ساتھ ایک آبشار اوپر سے گرتی تھی۔ میں وہاں ڈبکی لگا کر سرباہر نکالتا اور اوپر دیکھتا تو آنکھیں دھوپ سے چندھیا جاتیں اور چہرے پر آبشار کی بوندیں گرنے لگتیں… یہ بھی ایک ناقابل یقین جادوئی مقام تھا اور میں یہاں دیر تک ٹھہرنا چاہتا تھا، دھوپ کی زد میں آنے والی سیاہ مچھلیاں بھی پل بھر کے لیے سفید ہو جاتیں۔ عینی جو بہت دور تالاب کی سیڑھیوں پر مجھے دیکھ دیکھ کر فکر مند ہو رہی تھی کہ اخر اس اسی برس کے ابو کا میں کیا کروں۔ سفید بال چندیا کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں اور آبشار کے نیچے پانیوں میں ہاتھ پائوں مارتے مسکراتے چلے جاتے ہیں۔ تب میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھ ہلا رہی ہے۔ کچھ کہہ رہی ہے جو مجھ تک نہیں پہنچ رہا۔ تالاب میں اترتی سیڑھیوں تک پہنچا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے باہر آنے میں مدد دی۔ ابو سب لوگ کھانے کے لیے جا چکے ہیں۔ آپ نے کیا یہیں قیام کرنا ہے۔ یقین کیجیے میں اس آبی جادونگری سے جدا نہ ہونا چاہتا تھا۔ میں نے اب کہاں دوبارہ میکسیکو آنا تھا کہ عمر کی نقدی بھی تو ختم ہو رہی تھی تو الوداع اسے سحر طراز آبی خواب تو ابھی سے سراب ہوا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا تو یہی گیا تھا کہ لنچ کے موقع پر آپ کی تواضع قدیم مایا کھانوں سے کی جائے گی۔ حیرت ہوئی کہ مایا بے چارے ایسے بدمزہ کھانے کھاتے تھے۔ تبھی ان کے قد چھوٹے رہ گئے تھے۔ چار فٹ سے تجاوز نہ کرتے تھے۔ ہماری کوچ سنوتے سے قدیم مایا اہرام کے لیے روانہ ہوئی تو ہماری گائیڈ بولیتا نے ہمیں ایک حیرت سے دوچار کیا۔ اس نے ہر سیاح جوڑے اور خاندان کو ٹکیلا شراب کی ایک درمیانی بوتل بصد اصرار عطا کر دی۔ ہم نے سوچا کہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے اور پھر بوتل پر چسپاں لیبل کو غور سے دیکھا تو ہمارے پسینے چھوٹ گئے۔ اس پر ہم سب کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور میرا نام درج تھا۔ یا وحشت یہ کیا معاملات ہیں۔ تب بولیتا نے اعلان کیا کہ یہ آپ کے لیے سپیشل یادگاری بوتل تیار کی گئی ہے۔ صرف بیس پیسو، یعنی تقریباً بیس ڈالر عنایت کر دیجیے۔ بوتل آپ کی ہوئی۔ یہ ایک کاروباری حربہ تھا۔ میں قدرے مائل ہوا کہ اس سوونیئر کو خرید لیا جائے۔ ٹکیلا، شاہ حسین کی نذر کر آئیں گے اور بوتل اپنی سٹڈی ٹیبل پر سجا لیں گے لیکن خدشہ یہ دامنگیر ہوا کہ کسی حاسد نے دیکھ لی تو وہ عوام الناس میں یہ خبر نشر کر دے گا کہ یہ تارڑ سیاح کہاں ہے، مے فروش ہے، میکسیکو میں شراب کی بھٹی لگا رکھی ہے اور اپنے نام کا برانڈ ’’ٹیرر ٹکیلا‘‘ فروخت کر کے لنڈن کے پارک لین میں فلیٹ خریدنا چاہتا ہے، یقین نہ آئے تو وہ بوتل دیکھ لیجئے جس پر اس کی تصویر بھی چھپی ہوئی ہے۔ اس لیے بولیتا بی بی کو بوتل واپس کر دی کہ سوری ہم لوگ شراب نہیں پیتے، وہ کہنے لگی، سنیور ٹیرر یہ شراب نہیں ٹکیلا ہے۔ میں نے کہا، ہم وہ بھی فی الحال نہیں پیتے۔ ہم نے زیادہ فاصلہ طے نہیں کیا تھا جب کوچ شاہراہ ترک کر کے ایک چھوٹی سی سڑک پر رواں ہو گئی اور گرد اڑانے لگی۔ آس پاس بے روح سے بے ترتیب کھیت بکھرے ہوئے تھے جن میں کچھ کشش نہ تھی۔ تب میں نے قد آدم جنگلی گھاس اور خود روبوٹیوںکے اوپر مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے پرندے اڑتے دیکھے۔ ان میں سے ایک پرندہ ہماری کھڑکی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا اور مجھے ایک اور حیرت سے دوچار کیا،پرندہ نہ تھا، بہت بڑے سائز کی تتلی تھی، بالکل ویسی جیسی ہم نے ویت نام کے پہاڑی شہر ساپاکے جنگلوں میں اڑتی دیکھتی تھی۔ میں کئی بار تذکرہ کر چکا ہوں کہ میں اپنے بیٹوں کے ہمراہ مدینے کا مسافر تھا جب سمیر کہنے لگا کہ ابو مجھے پتہ ہے کہ آپ مدینے کا سفرنامہ ضرور لکھیں گے تو پلیز اس میں بھی سنولیک وغیرہ کی طرح تتلیاں نہ ڈال دیجئے گا اور عین اسی لمحے بائیں جانب گزرتے ویرانے میں سے چھوٹی چھوٹی سفیدتتلیوں کا ایک غول نمودار ہوا اور ہماری کار کی سکرین کو چھوتا ہوا گزر گیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، کیوں سمیر تتلیاں ہوتی ہیں کہ نہیں؟ وہ کہنے لگا۔ ٹھیک ہے ہوتی ہیں پر اتنی تو نہیں ہوتیں جتنی آپ ڈال دیتے ہیں۔ سمیر میرے ساتھ ہوتا تو اس سے پوچھتا کہ برخوردار اب بتائو کہ میکسیکو کے کھیتوں پر اڑانیں کرتی ان بے شمار تتلیوں میں سے کتنی اپنے سفر نامے میں ’’ڈالوں‘‘؟ میرے تصور میں اک تصویر تھی کہ بہت گھنے جنگل دکھائی دیں گے اور ان کی ہر بادل میں سے سر بلند ہوتا مایا تہذیب کا عظیم اہرام چچن اتزا دور سے نظر آنے لگے گا پر ایسا نہ ہوا۔ حسب معمول ہم ایک ایسی پارکنگ لاٹ میں داخل ہو گئے جہاں درجنوں کوچیں اپنے اپنے مسافر اگل کر استراحت فرما رہی تھیں۔مقامی مصنوعات کی ایک جدید مارکیٹ اور ریستورانوں سے پرے ایک ناہموار راستہ تھا جس کے دونوں جانب سوونیئرز کے کھوکھے سجے تھے (جاری ہے) اور قریب سے گزرتے سیاحوں کو ورغلایا جا رہا تھا۔ یہ مایا بازار ختم ہوا تو اس کے آس پاس جو گھنے شجر تھے وہ بھی پیچھے رہ گئے اور آسمان نزدیک آنے لگا۔ منظر پھیل گیا اور اس منظر کے عین درمیان میں چچن اتزا کا بلند اہرام اور دیو ہیکل دیوتا کی مانند جیسے ہماری نظروں کے سامنے تعمیر ہوتا گیا، یہاں تک کہ مکمل شکل میں ایستا وہ دکھائی د ینے لگا۔ یقینا یہ ایک عجب ساخت کی بھید بھری قدیم عمارت تھی، اہرام مصر کی مانند محض پتھروں کا ڈھیر نہ تھی بلکہ ایک خصوصی نقشے کے مطابق بادشاہ کے متمکن ہونے کے لیے، دیوتائوں کی قربت کے لیے، موسموں اور ستاروں کی جانچ کے لیے اور انسانی قربانی کے لیے خصوصی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ میں اس کی تکونی ساخت سے اس لیے بھی متاثر ہوا کہ آج جتنی بھی تہذیبیں میرے مشاہدے میں آئی تھیں یہ ان سب سے سراسر مختلف تہذیب کی نمائندہ عمارت تھی جس میں ایک انوکھا عجب پن اور اجنبیت تھی جو کشش تو رکھتی تھی لیکن اس میں ایک ہول بھی تھا۔ وسوسے تھے کہ کیا مایا تہذیب کی مانند اس کے خدا بھی متروک ہو گئے کہ نہیں۔ میں کسی حد تک اپنے خطوں کے خدائوں سے تو کچھ واقفیت رکھتا تھا لیکن امریکی براعظم کا یہ حصہ اور اس کے خدا میرے لیے یکسر اجنبی تھے…ویسے خدا یکسر متروک نہیں ہو جاتے، کسی ایک خطے میں ان کے پجاری نابود ہوتے ہیں یا ان سے برگشتہ ہو جاتے ہیں تو وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر وہاں سے رخصت ہو کر کہیں اور ظاہر ہو جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ لات و منات میں سے کسی ایک نے خانہ کعبہ سے نکالے جانے کے بعد سومنات میں جا پناہ لی۔ اپالو یونان سے نکلا تو گندھارا تہذیب کے بدھ کی صورت اختیار کر لی۔ ادھر شومہاراج نکلے اور تبت میں جابسرام کیا۔ دراصل انسانی نفسیات میں جب کوئی ایک خدا یا دیوتا ثبت ہوتا ہے تو وہ آسانی سے رخصت نہیں ہوتا۔ اس کے آثار کسی نہ کسی صورت باقی رہ جاتے ہیں اور اس کی مثالیں دینا میرے لیے مشکلیں پیدا کر سکتا ہے۔ جیسے ایک بڈھا ہندو مسلمان ہو گیا۔ اگلی سویر حسب عادت گڈوی بجاتے ہوئے رام رام کرنے لگا اور جب کسی نے سرزنش کی کہ اللہ اللہ کرو تو وہ کہنے لگا۔ اب صرف ایک شب میں اسی برس سے جس رام کی پوجا کی ہے وہ کیسے میرے بدن سے نکل جائے۔ کبھی مزاروں اور درگاہوں پر جا کر دیکھئے۔ پوجا اور پرستش کے وہی انداز چلے آتے ہیں جو کہ تھے تو پھر مایا دیوتا کہاں چلے گئے، کونسا روپ دھار چکے ہیں؟ میں نے اہرام کے گرد ایک چکر لگا کر اس کی بلندی اور عجب تعمیر کو اپنے ذہن میں اتارا اور جب انسانی قربانی کے بعد پروہت اس انسان کا سر سیڑھیوںپر یوں پھینکتے تھے کہ وہ لڑھکتا ہوا زمین پر جا گرتا تھا تو کہاں جا گرتا تھا، جہاں میں کھڑا تھا وہاں آ گرتا ہو گا۔ مجھے جھرجھری سی آ گئی اور میں پیچھے ہٹ گیا۔ یونہی جوگزر کو دیکھا کہ کہیں ان پر تازہ خون تو نہیں لگ گیا…چچن اتزا اہرام کے نواح میں مایا تہذیب کے دیگر کھنڈروں کا بھی ایک سلسلہ تھا اور ان میں کھیلوں کے لیے مخصوص ایک اکھاڑا بھی تھا جہاں آج کے باسکٹ بال سے مشابہ ایک کھیل بادشاہ اور عوام کا پسندیدہ تھا اور ہاں اس کھیل میں جیت جانے والے کھلاڑی کے گلے میں ہار نہیں ڈالتے تھے بلکہ تلوار سے اس کا گلا کاٹ دیا جاتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ جیت جائے اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ مایا لوگ بے حد پستہ قد تھے اور وہ ابھی دھات سے آشنا نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے صرف ایک سخت پتھر سے تراشیدہ خنجروں سے زمینیں کھودیں اور اتنی شاندار عمارتیں تعمیر کیں۔ چچن اتزا سے واپسی پر ہم کچھ دیر کے لیے میکسیکو کے ایک قدیم قصبے کی خوشنمائی میں ٹھہرے۔ جس کا نام ولاڈولڈ تھا۔ ہمیں شاید پہلی بار محسوس ہوا کہ ہم اس میکسیکو میں ہیں جو ہمارے تصور میں تھا۔ سان جرواسیو کا پرشکوہ کلیسا، گٹاریں بجاتے ہوئے لوگ، خواتین بالوں میں سرخ پھول لگائے ہوئے اور ہسپانیہ کی ہوائوں کی خوشبو… ہم گئی رات واپس کین کون پہنچے۔ ریزارٹ کے فرانسیسی ریستوران میں ایک پرتکلف کھانا موم بتیوں کی روشنی میں کھایا اور اگلی سویر اپنے بیس کیمپ آرلینڈو کی جانب پرواز کر گئے۔ ’’تمہارے بال جنگل میں گم ہو گئے ہیں تمہارے پائوں، میرے پائوں کو چھوتے ہیں دریا جو ہمیشہ بہتا ہے، واپس لینے لگا ہے کیا کل ایک اور دن ہوگا؟