آرزوئوں کی کوئی حد ہوتی ہے نا ان کا کوئی اصول‘ اہلیت اور اخلاقی جواز سے کوئی سروکار۔ یہ تو بس تکمیل چاہتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی کچھ ایسی ہی اپنی اور دوسروں کی آرزوئوں کی گٹھڑی باندھ کر اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا، اہداف کا تعین کیونکہ منزل پر پہنچ کر ہونا تھا اس لئے دائیں بائیں بازو اور علاقائی ،لسانی نو جماعتوں نے بھی مولانا کا رفیق سفر بننے کی حامی بھر لی۔ اس پراسراریت کو آزادی مارچ کا دلفریب نام دیا گیا گویا مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ طے کر لیا گیا کہ ہر کوئی اپنے اپنے اہداف طے کرنے میں آزاد ہو گا۔ عمر انصاری نے کہا تھا : مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر ایسی ہی بے اعتبار محبتوں کو لے کر مولانا نے جب مارچ شروع کیا تو سندھ میں پیپلز پارٹی کچھ فاصلے پر ہی سہی مگر مولانا کے ساتھ چلی ضرور۔ جب مارچ سندھ سے پنجاب میں داخل ہوا تو مسلم لیگ ن کی اپنی آزادی کی مہم زوروں پر تھی میاں نواز شریف آزادی مارچ کے ثمرات سمیٹ چکے تھے اور ان کی صاحبزادی کا فیصلہ ہونے کو تھا۔ اس نازک وقت پر آزادی مارچ نے لاہور کے آزادی چوک میں ڈیرے ڈالے۔ خلاف توقع مسلم لیگ ن کی مرکزی تو کیا ضلعی قیادت نے بھی مولانا کے استقبال کی زحمت گوارا نہ کی تو مولانا نے میاں برادران کو ناصر کاظمی کا یہ شعر یاد دلایا: تیری مجبوریاں درست مگر تونے وعدہ کیا تھا یاد تو کر آزادی چوک لاہور میں مولانا فضل الرحمن کو یہ احساس ہوا کہ مسلم لیگ ن نے تو ’’آزادی‘‘ کی حامی بھری ہے، مارچ تو مولانا کو خود اکیلے ہی کرنا ہے۔آزادی مارچ کے وسائل مہیا کرنے والوں نے لاہور میں مولانا کا استقبال تو کیا کرنا تھا الٹا اسلام آباد کے جلسے کو ایک دن کے لئے موخر کرنے کا اعلان کر دیا۔ لاہور میں مولانا سے مسلم لیگ کا ’’حسن سلوک‘‘ دیکھ کر صاحب اسلوب دانشور خورشید ندیم نے تو میاں شہباز شریف کی پارٹی کو چلمن کے پیچھے چھپنے کے بجائے فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔مریم بی بی کی ضمانت کا فیصلہ پیر پر پڑا تو مسلم لیگ کے صدر نے ہنگامی بنیادوں پر اسلام آباد پہنچ کر حکمرانوں کو للکارنا شروع کر دیا۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ للکارا بھی ان کو جن کے بارے میں گزشتہ ایک برس سے کٹھ پتلی کا راگ الاپا جا رہا تھا گویا جس کا وجود ہی نہیں اس دیوار کو گرانے کی آرزو ہے! صدر مسلم لیگ ن دیوار تو گرانا چاہتے ہیں مگر کون سی دیوار یہ بتلانے سے عاجز ہیں ۔ البتہ مولانا نے اسلام آباد میں پڑائو ڈال کر دو دن میں مستعفی ہونے کا مطالبہ تو عمران خان سے کیا ہے مگر وہ متنبہ اداروں کو کر رہے تھے ان کا مخاطب وہی ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ مولانا کو سیاست میں کیا ہتھیار ڈالنا سکھلائیں گے؟ مولانا کے دل کی بات کی وضاحت ہی مفتی کفایت اللہ اور مولانا حمد اللہ نے کی تھی۔ البتہ اسلام آباد میں مولانا نے اداروں کو بھی دو دن کی مہلت عنائت کی کہ وہ اپنا رخ حکومت سے پھیر کر ان کی طرف کر لیں۔ اس صورت ادارے مضبوط اور مولانا کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد سے راولپنڈی والوں کے لئے پیغام واضح ہے کہ 77ء میں 9ستاروں نے جو راہ ہموار کی تھی وہ قرض آج کی نو جماعتوں کو سود سمیت لوٹایا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ نو میں سے کم از کم دو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی آرزو کچھ رعائیتوں کے ساتھ ان ہائوس تبدیلی سے زیادہ نہیں۔ آصف علی زرداری نے معاملات بیٹے کے سپرد کر نے کا اشارہ دیا ہے تو شہباز شریف نے بھی بڑے بھائی کو علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانے کی حامی بھر لی ہے۔ معاملات طے ہیں، صرف خان کی ڈیل اور ڈھیل نہ دینے کی ’’اڑی‘‘ رکاوٹ ہے جو اسلام آبادمیں دسیوں ہزاروں کا مجمع دیکھ کر بھی ڈھٹائی سے این آر او نہ دینے پر اڑے ہوئے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان سختی کا مظاہرہ نہ کرتے تو مولانا کو اسلام آباد تک لانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اب تو مولانا اسلام آبادمیں بیٹھ کر راولپنڈی سے مخاطب ہیں ۔ان کا لائو لشکر نہ صرف ہفتوں کے زادِ راہ سے لیس ہے بلکہ 300فی کس جیب خرچ بھی پیشگی ادا کر دیا گیا ہے۔ دیکھنے والوں کو تو آزادی مارچ مسئلہ کشمیر سے آزادی سے بھی جڑا نظر آ رہا ہے ایسے وقت میں جب مودی کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا کر کنٹرول لائن کو ورکنگ بائونڈری تسلیم کروانے کا جتن کر رہا ہے ۔ عمران خان نے اقوام متحدہ سمیت عالمی سطح پر ایک بار پھر تنازع کشمیر کوزندہ کر دیا ہے، حکومت کسی طور اس معاملے پر پسپائی اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت کی توجہ اور قوت منتشر کرنے کے لئے آزادی مارچ سے بہتر اور کیا آپشن ہو سکتا ہے!۔ بھارت نے اس غوغے میں کشمیر میں گورنر سے حلف لے کر کشمیر پر قبضہ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ عمران خان سے زیادہ ان’’ فرشتوں‘‘ کے مخالفین کا ہدف بھی عمران کے بجائے کشمیر بتایا جا رہا ہے۔ کل ہمارے دوست محسن گورایہ نے اپنے کالم میں آزادی مارچ کو این ڈی ایس کے ذریعے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی فنڈنگ کی اطلاعات کا ذکر کیا تھا۔ مودی اور مولانا کا فارورڈمارچ محض اتفاق کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر آزادی میں میں دولت اسلامیہ افغانستان کے جھنڈوں کا نمو دار ہونے سے صرف نظر ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے کے مترادف ہوگا ۔مولانا کے راولپنڈی سے خطاب کا جواب سے زیادہ مشورہ آگیا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور کر ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعتراف کیا ہے اور مولانا کو اپنے تحفظات سڑکوں کے بجائے متعلقہ اداروں میں اٹھانے کا مشورہ دیا ہے ۔ جب آرزئوئیں بے لگام اور اصولوں سے بے نیاز تکمیل کی ضد کریں تو مشورے زہر لگنے لگتے ہیں۔مولانا کا معاملہ جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ مارچ میں آرزئوئیں اور اہداف دونوں ہی آزاد ہیں۔