نیویارک کے بروکلین (Brooklyn)، پیرس کے بیل ویل(Belleville)، لندن کے گولڈن برگ (Goldenberg)اور یورپ کے شہروں میں وہ آبادیاں جہاں یہودیوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، ایسے علاقوں کے سکولوں میں یہودی بچے کرسمس اور ایسٹر کے تہواروں کے بارے میں گیتوں اور ان گیتوں میں جیتے جاگتے کرداروں کو ایک خوبصورت خوابناک ماحول میں نرسری کی نظموں سے لے کر بڑی کلاسوں تک آج بھی پڑھتے ہیں۔ کورس میں سیدنا عیسیٰ ؑاور سیدہ مریم ؑکے حوالے سے گفتگو خواہ تہوار کی نسبت سے ہی کی جائے یہودیوں کے نزدیک بالکل ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے کسی سکول میں کسی مدعی نبوت کے یومِ پیدائش اور یومِ وفات کو ایک قومی تہوار کے طور پر نہ صرف پڑھایا جائے، بلکہ ان دنوں میں تمام تعلیمی ادارے ان تہواروں کے رنگ میں بھی رنگ جائیں۔ لیکن ان تمام ملکوں میں کوئی جسٹس تصدق حسین جیلانی سوموٹو نہیں لیتا، کوئی شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک آدمی والا نصابِ تعلیم کمیشن نہیں بنتااور نہ ہی وہاں کوئی ایسا کمیشن یہ سفارش کرتا ہے کہ مسلمان بچوں نے اگر اپنے مذہب کی شخصیات اور تہواروں کے بارے میں پڑھنا ہے تو جا کر اپنی اسلامیات کی کتاب میں جاکر پڑھو،ہماری اجتماعی تاریخ، ثقافت اور تہذیب سے تمہیں کیا سروکار۔ چھیانوے فیصد مسلمان جنہوں نے آج سے تہتر سال پہلے یہ ملک ہندوستان کے جغرافیے سے اس لیے علیحدہ کیا تھا کہ یہاں اسلامی طرزِ زندگی پر عمل درآمد کریں گے، انہیں کہا جا رہا ہے کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ 2فیصد ہندوؤں اور 1.5فیصد عیسائیوںکے ساتھ ایک کلاس میں بیٹھ کر اور ایک ہی کتاب میں رمضان ، عید، سیدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ اور عید قرباں، میلاد الرسول ﷺ کا جشن اور سیدنا امام حسینؓ کی لازوال قربانی اور واقعہ کربلا جیسے موضوعات پڑھو ۔ ان تہواروں پر چھٹیاں تو اس لیے دی جاتی ہیں کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن جب تم تاریخ کی کتابوں میں مسلمان شخصیات کا ذکر کرتے ہو تو ہمارے بچوں کی ’’طبع نازک‘‘پر گراں گزرتا ہے۔ اس رپورٹ کے علاوہ ایک اور منطق بھی عموماً بگھاری جاتی رہی ہے اور خصوصاً ہمارے صوبہ سندھ کے سیکولر دانشور نصابِ تعلیم مرتب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں تو اپنی دھرتی کے ہیروز کو ہر حال میں پڑھانا ہے،خواہ محمد بن قاسم جو اس ملک کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے، ہمیں اسکی توہین ہی کرنا پڑے۔ ایسا لوکل نان لوکل ہیروز کا ایشوکبھی آسٹریلیا سے لے کر کیلفورنیا کے ساحل تک کہیں نہیں اٹھایا جاتا۔کوئی نہیں کہتا کہ جزیرہ نمائے عرب کے ایک ساحلی علاقے فلسطین میں پیدا ہونے والے پیغمبر سیدنا عیسیٰ ؑ کا ڈنمارک، سویڈن، جرمنی، انگلینڈ اور امریکہ سے کیا تعلق ہے۔ انہوں نے تو زندگی بھر ایک لمحے کے لیے بھی ان علاقوں میں قدم تک نہیں رکھا۔ پاکستان کے سکولوں میں مسلمانوں کے تہواروں اور شخصیات کے ایام کے حوالے سے ویسی رنگارنگی نہیں پائی جاتی جیسی مغربی دنیا میں مذہبی تہواروں کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے سکولوں میں کرسمس اور ایسٹر کے حوالے سے نظمیں گائی جاتی ہیں، خوبصورت، دلکش اور دیدہ زیب کتابیں آغاز میں ہی بچوں کو دی جاتی ہیں۔ جس طرح سانتا کلازاور ’’کرسمس ٹری‘‘ کو کلاسوں کی زیب و زینت کا حصہ بنایا جاتا ہے اس سے کوئی ایک لمحے کے لیے یہ تاثر نہیں لے سکتا ہے کہ یہ ممالک دراصل سیکولر، لبرل ہیں۔ کیا یہ تمام ممالک وہاں موجود اقلیتوں کے کسی تہوار کو اپنے بچوں کے نصاب کا حصہ بناتے ہیں۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کی عید الاضحی کے تہوار کو بچوں کو سمجھانے کے لیئے حضرت ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل ؑ کی قربانی کا تذکرہ ہی نصاب میں شامل کیا جائے تو وہاں ہنگامے پھوٹ پڑیں۔ کیونکہ یہ قربانی ہی چند بڑے اختلافی امور میں سے ہے۔ یورپ کی تاریخ بچوں کے نصاب میں نہ صرف یورپ کے ممالک میں پڑھائی جاتی ہے بلکہ امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بچوں کو ہیروز کی یک رنگی (Uniformity Heros) کے تصور کے تحت لازماً پڑھائی جاتی ہے ۔ اس تاریخ کا ایک اہم ترین کردار روم کا بادشاہ کانسٹین ہے جس کی موجودہ عیسائی مذہب میں سب سے اہم حیثیت ہے۔ اس سے پہلے عیسائی صلیب نہیں اٹھاتے تھے اور نہ ہی ایک متفقہ بائبل رکھتے تھے۔ موجودہ عیسائیت کی تمام اہم علامتیںخواہ وہ صلیب ہو یا ایک متفقہ انجیل، کرسمس کی تاریخیں ہوں یا ایسٹر اور گڈ فرائیڈے کے تہواروں کی رسومات سب کی سب اس ایک شخصیت کی مرہونِ منت ہیں۔ کانسٹین کو ’’سینٹ‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور کوئی عیسائی اکثریت والا ملک ایسا نہیں ہے، خواہ وہ افریقہ میں ہی کیوں نہ واقع ہو، جہاں نصاب کی کتابوں میں سیدنا عیسیٰ ؑ، سیدہ مریم ؑ اور سینٹ پیٹر کے ساتھ اس کی شخصیت کو نہ پڑھایا جاتا ہو۔ کانسٹین کا ذکر ان کے مذہبی نصاب نہیں، بلکہ تاریخی نصاب کا حصہ ہے۔ حالانکہ کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ کا روما کی سلطنت سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ یورپ اور امریکہ کے سکولوں میںبچوں کے لیے تاریخ کی کتابیں انتہائی شاندار اور دل موہ لینے والی ہوتی ہیں اور ان میں ایک خوابناک سا تصویری ماحول چھایا ہوتا ہے۔ یہ رنگارنگ کتابیں سکولوں میں عیسائیوں کے علاوہ مسلمان، یہودی، ہندو اور سکھ بچہ بھی پڑھتا ہے اور مذہبی نظمیں بھی گنگناتا ہے۔ کیا امریکہ کے کسی سکول کی تاریخ کی کتابوں میں گوروںکے آباء و اجداد کا وہاں کی مقامی آبادی ریڈ انڈین قبائل پر ظلم، وحشت، درندگی اور تشدد کی داستانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ کیا انہیں بتایا جاتا ہے کہ جو تمہارے ساتھ اس وقت ایک دو فیصد ریڈ انڈین امریکی شہری ہیں یہ کبھی اس ملک میں سو فیصد ہوا کرتے تھے۔ دنیا کا ہر ملک ایک نظریے اور طرزِ زندگی پر قائم ہے ۔ اس کی ریاست و حکومت اس نظریے کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ یہ نظریہ جمہوریت یا بادشاہت ہو، فاشزم، کیمونزم یا سیکولرزم ہو، غرض نظریہ ہی ہر ملک کے قیام کی اساس ہوتا ہے ۔ دنیا کے تمام ممالک کے تعلیمی اداروں میں ہر قوم کے نظریہ کو ہی پڑھایا جاتا ہے اور اسی کے بارے میں محبت پیدا کی جاتی ہے۔ کیا امریکہ کے بچے سکولوں میں اس امریکی کرسچن صہیونی اقلیت کا نظریہ پڑھتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ہم جمہوریت کی بجائے انجیل مقدس کا نظام امریکہ میں نافذ کردیں گے۔ جرمنی میں آج بھی نسل پرست فاشسٹ ہٹلر سے محبت کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے لیکن کیا ہٹلر ان کے نصاب میں موجود ہے۔ لیکن پاکستان سے یہ مذاق اس کی تخلیق کے دن سے کیا جا رہا ہے۔ ہر دوسرے دن یہ سوال پوچھا جاتا ہے یہ ملک کیوں بنایا گیا تھا۔ یہ سوال کرنا دراصل ان لاکھوں شہداء کے خون کا تمسخر اڑانا ہے جو اپنا گھر بار، جائیداد اور والدین کی قبریں چھوڑ کر یہاں آئے تھے۔ ان کو خوب معلوم تھا کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ تحریکِ پاکستان کا مقصد مسلمانوں کو ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور بدھ مت والوں سے علیحدہ کرکے ایک خطے میں جمع کرنا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت جتنے مسلمان بھی اس پاکستان میں جمع ہو سکے اب ان کا نظام اور ریاستی نظریہ صرف اسلام ہے۔ دیگر مذاہب کے جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں ویسی ہی تعلیمی نصاب میں آزادی ملنی چاہیے جتنی بروکلین میں ایک یہودی کو ، اسرائیل کے نصاب میں ایک عیسائی کو اور بھارت میں ایک مسلمان بچے کو حاصل ہے۔