احتیاطی تدابیرکے ساتھ زندگی کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ بازاروں کی چہل پہل اور سڑکوں پر گاڑیوں کی قطاریں دیکھ کر رگ ویشے میںاتراخوف چھٹنا شروع ہوچکا ہے۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس کے ساتھ نبھا کیے بغیراب چارہ نہیں۔ ویکسین بن ضرور جائے گی لیکن اس کے استعمال اور بعدازاں انسانی جسم پر پڑنے والے اثرات کو جانچنے کے لیے وقت درکا رہوگا۔ کورونا کی مہلک وبا نے ایک بار پھر انسانوں کو باور کرایاکہ قدرتی آفت یا وبا رنگ، نسل ،مذہب یا سرحد کا امتیاز نہیں کرتی ۔آفات سماوی کا تما م انسانوں کو مشترکہ طور پرمقابلہ کرنا پڑتا ہے۔یہ حقیقت ایک بار پھر آشکا رہوئی کہ حکومت اور سرکاری ادارے قدرتی آفات کے نزول اور وبا کے پھوٹنے پر بے بس ہوجاتے ہیں۔ ان کی اتنی استعدادنہیں کہ وہ شہریوں کو کنٹرول کرسکیں۔ ان کی ضروریات پوری کرسکیںیا انہیں مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے آگہی دے سکیں۔ شہریوں اور انتظامیہ کے مابین رابطے کے لیے سیاسی کارکنوں یا پھر سماجی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماجی تنظیموں کے درجنوں نہیں سینکڑوں کارکن رضاکارانہ جذبے سے سرشار ہو تے ہیں۔ ان کے پاس تجربہ بھی ہوتاہے اور وہ شہریوں کی خدمت میں تخصیص بھی نہیں کرتے۔ وسائل وہ مخیر حضرات اور عالمی اداروں کی مدد سے جمع کرلیتے ہیں۔لہٰذ احکومت پر بوجھ نہیں بنتے۔ضرورت انہیں صرف سرکاری سرپرستی کی ہوتی ہے۔ افسوس!بیشتر حکومتوں نے سماجی اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔منظم طریقے سے ان کی سرکوبی کی گئی اور مسلسل ان کا تعاقب کیاگیا تاکہ معاشرے کے اندر کوئی متبادل بیانیہ اورآزاد فکر پیدا نہ ہوسکے۔ کورونا کے دوران اگرچہ ہم سب گھروں تک محدود رہے لیکن اس عرصے میں فکری اور نظریاتی بحثوں کا سلسلہ بھی خوب جما۔سازشی تھیوریوں کے بیوپاریوں نے اپنا مصالحہ نئے رنگ وڈھنگ سے مارکیٹ میں فروخت کیا۔ پولیو ویکسین کی طرح اب یہ خیال بھی تیزی سے پھیلا جارہاہے کہ نئی ویکسین مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی سازش ہے ۔ مسلمان دنیا کی آبادی کااس وقت پچیس فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ان کی آبادی دو ارب کی حد کو چھورہی ہے۔اور کتنی مسلمان آبادی ہمیں درکار ہے؟ علم وہنر سے بے بہرہ مسلمان آباد ی سے مغرب کو کیا خطرہ؟ گزشتہ کئی صدیوں سے کوئی ایک بھی نامور مسلمان سائنسدان پیدا نہیں ہوا۔سماجی علوم کا کوئی ایسا ماہرنہیں ابھرا جس نے علم اور تحقیق کے نئے دروازے واکیے ہوں۔ مسلمان ممالک کی یونیورسٹیوںکی حالت افریقہ کے کئی ایک ممالک سے بھی برترہے۔مسلم حکمرانوں کو یہ توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ قومی وسائل کا رخ تعلیم اور صحت کی طرف موڑیں۔ قومی وسائل کا زیادہ تر حصہ لوٹ کر مغربی ممالک کے بینکوں میں جمع کرایاجاتاہے ۔ مسلمانوں کی عمومی حالت زار دیکھ کر یہ گمان کرنا بھی عبث ہے کہ کوئی ان کے خلاف سازشوں کا تنابانا بن رہاہوگا۔وہ عالمی منڈی کے لیے لیبر فورس کے علاوہ کچھ بھی اورتیار نہیں کرتے۔ سستی لیبر فورسز کی دنیا کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔مغربی ممالک کی صنعتوں کی چمنیاں مشرق سے درآمد شدہ سستی ورک فورس ہی کے دم خم سے راکھ اگلتی ہیں۔ ہمارے ایک سینئر کالم نگار لوگوں کو آج کل مسلسل سمجھا رہے ہیں کہ وہ یورپ اور امریکہ سے نکل جائیں ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ وہ چن چن کر مارے جائیں گے۔ ان کی اولادیں قتل کردی جائیں گی۔ہمارے صحافی دوست خالد گردیزی نے فیس بک پوسٹ لگائی:دوستو!ہماری لڑائی کا اصل میدان نیو یارک۔برسلز۔بیجنگ اوردہلی ہے۔اسلام آبادیا مظفرآباد نہیں۔مخالف کی طاقت کا اندازہ کیجیے۔ لڑائی کو جیتے کیلئے ہمیں طاقتور سیاستدان چاہییں۔معتبرصحافی اوردبنگ فوجی و سول آفیسرز چاہییں۔ہوشیارسفارت کار چاہییں۔ دکھی دل کے ساتھ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدارا۔اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے خود کو کمزورمت کریں۔ مجھے اس طرزتخاطب سے اتفاق نہیں کہ معصوم لوگوں کو ایک بے مقصد اور دیوملائی جنگ وجدل کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ ہمیں اپنی لغت یعنی Vocabulary کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیا مناسب نہ ہوگا کہ کچھ وقت کے لیے محاذآرائی، لڑائی اور مقابلے جیسے الفاظ کااستعمال ترک کردیا جائے ۔ سب مل جل کر نئی نسل کو اشتراک، تعاون، مفاہمت اور مشترکہ مفاد کے لیے کام کرنے کا سلیقہ سکھائیں۔اگر اشتراک اور مفاہمت پر یقین نہیں رکھتے ہیں تو بھی حکمت عملی کے طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے بھی تو یہ راستہ اختیار کیاجاسکتاہے ۔ فرمایا ہے: حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاںسے بھی اسے ملتی ہے وہ لے لیتاہے۔ جدید اور خوشحال چین کے معمار کہلانے والے ڈینگ ژاؤ پنگ نے چینی سیاستدانوں، سفارت کاروں اور سرمایہ کاروں کو محض ایک دوفقروں میں ایک نصیحت کی جسے انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے گرہ میں باندھ رکھا ہے۔اہل پاکستان کو بھی یہ ہی سبق ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے۔وہ کہتے ہیںHide your strength, bide your time سادہ الفاط میںاس کا مطلب ہے: اپنی طاقت کو چھپاؤ اور وقت کا انتظارکرو۔ چین نے ایسا ہی کیا اور آج وہ عالمی منظر نامے پر دوسری بڑی عالمی طاقت کے طورپر ابھرچکا ہے۔چین کے سفارت کار کل کے برعکس اب مخالفین کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کو اپنے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور دنیا کے ساتھ اشتراک عمل کی رائیں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے مسلمان لیڈر عبدالمالک مجاہد کی پوسٹ سے معلوم ہوا: نیویارک میں جان بچانے والے ڈاکٹروں میں سے دس فیصد مسلمان ہیں۔نیویارک میں مقیم معاذ اسد صدیقی ایک سماجی کارکن اور صحافی ہیں۔ اکثر سوشل میڈیا کے ذریعے بتاتے ہیں کہ کس طرح مسلمان تنظیمیں بلارنگ ونسل ومذہب ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہیں۔عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں کہ ہم امریکی کمیونٹی کو اپنی کہانی سناتے ہی نہیں۔ دنیا اس وقت چین کے خلاف سازشیں ضرور کررہی ہے کیونکہ وہ ان کے مقابلے میں ایک طاقت کے طور پر ابھر رہاہے۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ عام لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ دن رات مغرب کی برائیاں بیان کرتے ہیں کہ وہ خود علاج، تعلیم اور روزگار کے لیے انہی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔سیاستدانوںکا ذکر ہی چھوڑیں۔سپریم کورٹ نے دوہری شہریت رکھنے والے سرکاری افسران کا ڈیٹا جمع کرنے کا حکم دیا توہزاروں سرکاری اہلکار دہری شہریت والے پائے گئے۔چند ہفتے قبل قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتایاگیا کہ سولہ اعلیٰ سرکاری افسر دہری شہریت رکھتے ہیں۔ سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری اشرافیہ جو سبق قوم کو پڑھاتی ہے اگر وہ سچ ہوتاتو یہ لوگ کبھی بھی دہری شہریت حاصل کرنے کے لیے ایڑیاں نہ رگڑتے۔