یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو فروری کی بارہویں سویر ہے اور بدھ کا دن۔ میرے سامنے نو دس اخبار پڑے ہیں اور سبھی کے صفحہ اول پر ایک خبر تین تین، چار چار کالم کے چوکھٹوں میں نمایاں کی گئی ہے’’مظفرگڑھ: زیر تعمیر عمارت زمین بوس،8 افراد جاں بحق، 5 کی حالت تشویش ناک‘‘۔ اس سرخی کے ذیل میں تفصیل ایک ہی ہے۔ تفصیل ہی کیا‘ حروف اور جملوں کی نشست وبرخاست بھی ایک. مضافات سے جو خبریں آتی ہیں‘ ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں دو دو تین تین پریس کلب، ہر پریس کلب کے درجنوں ارکان مگر شہر بھر میں کوئی ایک ہی سپوت ہوتا ہے جو خبر لکھنا جانتا ہے‘ اس کی ہی خبر ہر ادارے کو ای میل یا واٹس ایپ کردی جاتی ہے۔ سو آج ملتان سے چھپنے والے تمام اخبارات میں اس افسوس ناک خبر کی تفصیل ایک سی ہے۔ تاہم یہ ہمارا موضوع نہیں، اصل بات تو وقوعہ کی ہے جو ایک ہی خاندان کے کئی افراد کی جان لے گیا۔ اس تفصیل کا اجمال اگر کروں تو مظفرگڑھ شہر کے قنوان چوک میں سلیم بھولو نامی شخص نے اپنے گھر کو کمرشل پلازہ میں تبدیل کیا اور تین منزلیں بناڈالیں۔ نیچے دکانیں اور اوپر کی منازل پررہائش گاہیں۔ اوپر محمد شفیق اور کامران اپنے اہل خانہ کے ہم راہ رہائش پذیر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ’’پلازہ‘‘ راج مستریوں کی ’’انجینئرنگ‘‘ کا شاہ کار تھا۔ کچھ دیواریں، ستون نئے اور بیش تر پرانے۔ نیچے کی دکانیں پچھلے دنوں ایک کپڑے کے تاجر نے کرائے پر لیں اور دو دکانوں کے درمیان موجود دیوار نکال کر وہ اپنی دکان بڑی کررہا تھا۔ مزید برآں اوپر ایک اور منزل بھی تعمیر کی جارہی تھی۔ دیواریں جو نکلیں تو لینٹر بے سہارا ہو کر زمیں بوس ہوا۔ آٹھ بچے، جوان، بزرگ اْس موت سے ہم کنار ہوئے جس سے کائنات کے سب سے بڑے انسان صلعم نے اپنی دعائوں میں پناہ مانگی ہے۔ رسولِ کریم صلعم کی مشہور دعا ہے ’’اے اللہ! بے شک میں گر کر مرنے‘ دب کر مرنے‘ ڈوب کر مرنے اور جل کر مرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘ اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ موت کے وقت شیطان مجھے اچک لے اور میں تیری پناہ چاہتاہوں اس سے کہ تیرے راستے میں پیٹھ پھیرتے ہوئے مارا جائوں اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میری موت(زہریلے جانور کے) ڈسنے سے واقع ہو‘‘ (سنن نسائی حدیث نمبر 5533) آٹھ تو جان سے گئے، پانچ ہسپتال کے بستروں پر زندگی اور موت کی کش مکش میں ہیں۔ سنتے ہیں کہ آج اس فیملی نے عمرے پر روانہ ہونا تھا اور کراچی سے کچھ لوگ انہیں ملنے اور خداحافظ کہنے آئے ہوئے تھے۔ موت نے تو آنا ہے، کب اور کس جگہ؟ کوئی نہیں جانتا۔ کوئی نہ کوئی سبب بھی یقینا بنتا ہے موت کا۔ تاہم جب کسی دوسرے کی غفلت‘ غلطی اور حرص و ہوس کی بنا پر کسی کو موت آئے تو تکلیف اور اذیت سِوا ہوتی ہے۔ سزا و جزا کا سار فلسفہ انہی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ مرنا تو ہر ایک نے ہے۔ مگر مذاہب کے الہامی قوانین ہوں یا اخلاق و تہذیب کے انسانی ضابطے، کوئی بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایک شخص، دوسرے کی موت کا فیصلہ کرے یا باعث بنے۔ ہاتھ کے بدلے ہاتھ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان۔ یہ قوانین ایسی من مانیوں کی روک تھام کو مقرر کئے گئے ہیں۔ میں نے دیکھا تو نہیں، پڑھا ضرور ہے کہ برٹش میوزیم میں پتھر کی کچھ سلیں دھری ہیں جن پر جناب عیسیٰ علیہ السلام سے اٹھارہ سو سال قبل مرتب کئے گئے قوانین درج ہیں۔ اپنے زمانے کی مہذب ترین سرزمین’’بابل‘‘ کے پہلے شاہی خاندان کے چھٹے اور سب سے مشہور بادشاہ حمورابی نے یہ قوانین مرتب کئے تھے۔ حمورابی نے بے شمار فتوحات کیں اور وہ بہت بڑے علاقے کا بادشاہ تھا. ساحر اور ماہر طلسمات و روحانیات بھی تھا مگر اْس کی وجہ شہرت وہ دو سو بیاسی قوانین ہیں جنہیں پتھر کی تختیوں پر کندہ کروایا گیا اور پھر انہیں بابل اور میسوپوٹیمیا کے بڑے بڑے شہروں میں چوراہوں پر نصب کروادیا گیا۔ انہی قوانین کی بنا پر بابلی تہذیب، پہلی بڑی انسانی تہذیب مانی جاتی ہے۔ ان قوانین میں تجارت، خانگی معاملات اور انصاف کے سامنے سب کی برابر جواب دہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ سزائوں کی بنیاد حمورابی نے بھی ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ کے اصولوں پر رکھی۔ حمورابی کا ذکر آج کے کالم میں یوں دَر آیا کہ ان دو صد بیاسی قوانین میں سے ایک شِق یہ بھی تھی کہ عمارت اگر وقت سے پہلے منہدم ہوجاتی ہے تو اسے تعمیر کرنے والا مالک کا نقصان پورا کرے گا۔ اگر اس کے نیچے دب کر کوئی غلام، مالک کا بیٹا یا خود مالک ہلاک ہوجاتا ہے تو سزا کے طور پر عمارت تعمیر کرنے والے کا بالترتیب غلام، بیٹا یا خود اسے ہلاک کیا جائے گا۔ حمورابی کے ضابطوں میں ریاست کے باسیوں کو تین درجات میں تقسیم کیا گیا، اشرافیہ، شہری اور غلام مگر جرائم کی سزا ہر طبقے کے لئے یکساں تھی۔ تاہم اب ہم کپڑے کے تاجر پٹھان کو کچھ نہیں کہہ سکتے جو دو دکانوں کی درمیانی دیوار نکال کر اپنی دکان بڑی اور دیدہ زیب کررہاتھا. اس کی وجہ یہ ہے کہ حمورابی کے بعد اب ہم اڑتیس صدیوں کا سفر طے کر کے بہت زیادہ مہذب ہوچکے ہیں۔ گوکہ ہمارا معاشرہ اب بھی طبقات میں بٹا ہے مگر جرم کی سزا سب کے لیے ایک نہیں ہے۔ سزا تو بہت دور کی بات ہے، ٹریفک کی سرخ بتی کے ا حترام سے اشراف مستثنیٰ ہیں. اب ہم اس قدر تہذیب یافتہ ہوچکے ہیں کہ شہریوں کے معصوم بچوں کو جنسی و جسمانی اذیتیں دے دے کر مارنے والوں کو سر عام سزائے موت کی قرارداد اگر اسمبلی میں پیش ہوتی ہے تو ہمارے روشن خیال وزراء اور ارکان اسمبلی اس کی مخالفت پر زور بیاں آزمانے کو تل جاتے ہیں۔ ہمارا شعور اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ ایک وزیر قرارداد پیش کرتا ہے تو دوسرے وزراء لفظوں سے اس کی مخالفت میں آتش و آہن برساتے ہیں۔ سو اے میرے ملک کے سرمایہ دارو! دکانیں بڑی کرتے رہو اور لوگوں کے بچے، بھائی، بزرگ مارتے رہو۔ تمہیں کوئی کچھ کہنے والا نہیں کیوں کہ ہم ایک باشعور اور مہذب قوم ہیں.