روس اور یوکرائن کے مابین فروری 2022 میں شروع ہونے والی جنگ کو ایک سال ہوگیا ہے اور یوکرائن کی طرف سے روس کے حملے کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ 24 فروری 2022 کو روسی صدر ولادی میر پوٹن نے یوکرائن پر شمال، مشرق اور جنوب سے حملہ کیا۔ اِس حملہ کو "خصوصی فوجی آپریشن" کا نام دیا گیا جس کا مقصد یوکرائن میں بسنے والے روسی نسل کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے، کیف کی نیٹو کی رکنیت کو روکنے اور اِسے روس کے "دائرہ اَثر" میں رکھنا تھا۔ اگرچہ یوکرائن اکیلا لڑرہا ہے لیکن مالی اور فوجی امداد کے معاملے میں یوکرائن کو اَمریکہ سمیت مغربی دنیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ میڈیا کی تازہ اِطلاعات کے مطابق یوکرائن کے مشرقی علاقے ڈونیسک کے شہر بخموت میں شدید لڑائی جاری ہے اور روسی افواج نے یوکرائنی افواج کو گھیرے میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے گولہ بارود کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے اَمریکہ اور مغربی یورپی ممالک سے دفاعی سازوسامان کی مزید کھیپ مہیا کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوکرائن کے لیے ایک اہم تشویش اس کے گولہ بارود کے ذخیرے میں مسلسل کمی ہے کیونکہ روس کے ساتھ انتہائی شدت کی جنگ میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے جبکہ صدر زیلنسکی کے بقول "روس کو روکنے" کے لیے توپ خانے اور گولے درکار ہیں۔ اَمریکہ نے کیف کے ختم ہونے والے گولہ بارود کے ذخیرے کو بڑھانے کے لیے مزید 400 ملین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اَمریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اَمریکہ کی طرف سے تازہ ترین پیکج میں انتہائی درست نشانہ لینے والے ہیمارس آرٹلری راکٹ اور ہاؤٹزر شامل ہیں "جنہیں یوکرائن بہت مؤثر طریقے سے استعمال کر رہا ہے"۔ اَمریکہ یوکرائن کے متوقع جارحانہ حملے سے پہلے جنگی اہمیت کے حامل پل بھی بھیج رہا ہے جبکہ اِس طرح کے سازوسامان کی ترسیل سمیت بکتر بند گاڑیوں کو دریاؤں اور گڑھوں کو عبور کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں جارحانہ کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔ گزشتہ سال اَمریکی سینیٹ نے دو طرفہ تعاون کے تحت 40 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا تھا، جس میں سے کم از کم 15 بلین ڈالر یوکرائنی مسلح افواج کو فراہم ہونا تھے جبکہ بقیہ رقم کا زیادہ حصہ روس کے ساتھ تنازع میں دوسرے محاذ کے لیے مختص کیا گیا جسے "جیو۔اِقتصادی جنگ" کا نام دیا گیا۔ اِس وقت جنگ کی صورتحال یہ ہے کہ روسی افواج یوکرائن کے مشرقی خطے ڈونباس کے شہر باخموت سے باہر نکلنے والے آخری راستوں پر شدید بمباری کررہی ہیں، جس کا مقصد محصور یوکرائنی شہر کا گھیراؤ مکمل کرنا اور ماسکو کو نصف سال میں اپنی پہلی بڑی فتح کے قریب لانا ہے۔ حیران کن اَمر یہ ہے کہ یوکرائنی باشندوں کے خدشات کے برعکس بین الاقوامی دنیا باالخصوص اَمریکہ اور مغربی ممالک اِس جنگ سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اَبھی تک یوکرائن کے علاقے خالی کرنے کے لیے روس پر دباؤ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ اَمریکہ چین پر بھی سفارتی دباؤ ڈال رہا ہے کہ چین روس کی مبینہ حمایت سے نہ صرف پیچھے ہٹے بلکہ روسی صدر پیوٹن کو یوکرائن کے مقبوضہ علاقوں سے اپنی افواج واپس بلانے اور یوکرائن کے علاقے یوکرائن کے حوالے کرنے پر قائل کرے۔ اِس کی تازہ مثال یورپی یونین کے ایک اہلکار کا یہ بیان ہے کہ چین کی جانب سے روس کو کوئی بھی اسلحہ فراہم کیا گیا تو اس پر پابندیاں عائد ہوں گی۔ دوسری طرف اَمریکی صدر جو بائیڈن اور جرمن چانسلر اولاف شولز نے واشنگٹن میں ہونے والی اپنی حالیہ ملاقات میں یوکرائن کی جنگ کے لیے روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا عزم کیا ہے جب کہ بھارت کے شہر نیودہلی میں منعقد ہونے والے گروپ بیس (G-20) کے وزرائے خارجہ کے اِجلاس میں روس یوکرائن تنازع پر اِختلافات کی وجہ سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوسکا کیونکہ یوکرائن جنگ کے اِیشو پر رکن ملکوں میں اِختلاف پایا جاتا ہے۔ گروپ بیس (G-20) کے وزرائے خارجہ کے اِجلاس کے موقع پر کواڈ ممالک کے وزرائے خارجہ نے یوکرائن میں دیرپا امن کے قیام اور یوکرائن پر روسی حملے کے حوالے سے،علاقائی خودمختاری اور سالمیت کے احترام پر زور دیا۔ نئی دہلی میں میٹنگ میں، کواڈ وزراء خارجہ (جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، وزیر خارجہ ایس جے شنکر، جاپان کے وزیر خارجہ یوشیماسا ہایاشی اور آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ شامل ہیں) نے ہند بحرالکاہل میں چین کے جارحانہ رویے کو بھی نشانہ بنایا۔اِس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یوکرائن جنگ نے عالمی طاقتوں باالخصوص اَمریکہ اور چین کے مابین مخاصمت کو مہمیز دی ہے اور دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اِس جنگ میں کونسا فریق اپنے کتنے اَہداف کس حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟اِس معاملے میں حتمی رائے دینا قبل از وقت ضرور ہے مگر موجودہ حالات کی بنیاد کی وجہ سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ آنے والے سالوں میں بین الاقوامی سیاست امریکہ روس اور چین کے مابین سہ فریقی تعلقات کے گرد گھومے گی۔ البتہ اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام دنیا بالخصوص پسماندہ اور ترقی پزیر اِیشیائی اور افریقی ممالک، روس اور یوکرائن کے مابین ہونے والی جنگ سے معاشی طور پر مزید متاثر ہوں گے۔ یوکرائن اور روس پر مشتمل علاقہ دنیا کے لیے ایک Bread Basket یعنی گندم اور مکئی سمیت کھانے پینے کی چیزیں پیدا کرنے والا علاقہ جانا جاتا ہے اور نہ صرف گندم جیسی بنیادی ضرورت کے برآمد کنندہ کے طور پر، بلکہ دنیا بھر میں کھاد کے بڑے سپلائرز میں سے ایک ہے۔ روس تیل، گیس اور دھاتوں کا بڑا سپلائر ہے جبکہ یوکرائن اور روس مل کر گندم اور مکئی کی اجناس کے سب سے بڑے اَیکسپورٹر ہیں۔ اِن اَشیاء کی کم مقدار میں سپلائی، اِن کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کی موجب بنی ہے جس کا سامنا پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام کررہے ہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ روس اور یوکرائن کے مابین فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اَمریکہ دنیا پر اَپنے اِکلوتے تسلط اور اجارہ داری قائم کرنے کے عزائم ترک کرتے ہوئے روس کے گھیراؤ کی غرض سے نیٹو کی مزید توسیع روک دے تاکہ تنازعے کا ایک پرامن اور پائیدارحل تلاش کیا جسکے جو فریقین کو قابلِ قبول ہو۔ ٭٭٭٭٭