پلیجو سیاست کو ایک طرف بطور سائنس تو دوسری طرف آرٹ سمجھتے تھے اور اسکا عملی مظاہرہ بھی کرتے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پلیجو صاحب ہماری سیاست کے آرٹسٹ تھے۔ مگر اس کے ساتھ وہ پرفارمنگ آرٹ کے شیدائی اور خالق بھی تھے، گیت کمپوز کرنا اور گھنٹوں ریہرسل کروانا ان کا پسندیدہ کام تھا۔ ان کے نزدیک انقلابی سیاست بغیر موسیقی اور شاعری کے نا مکمل ہے۔ ان کی نظر میں اس سے ولولہ و عزم اور جرات و ہمت کو مہمیز ملتا ہے۔ پلیجو صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات لندن میں ہوئی جہاں میں خود ساختہ جلاوطنی کے ایام کاٹ رہا تھا۔ اسکا پس منظر یوں ہے کہ1983میں ایم آر ڈی کی جدوجہد جس میں پلیجو صاحب اور ان کی عوامی تحریک ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی تھی ، اس کا چرچا برطانیہ کے اخبارات میں خوب ہو رہا تھا۔ ہم اپنے تئیں برطانیہ میں سیکولراور لبرل جمہوری مغربی حکومتوں کی انسان دشمن، رجعت پرست اور فرقہ وارانہ قوتوں کے بہی خواہ آمر ضیاالحق کی حمایت کے خلاف متحرک تھے۔ ان دنوں میں برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا اور اس یونیورسٹی میں درجن بھر کئی اور پاکستانی سکالرز بھی زیرتعلیم تھے۔ ہم اکثر پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے بحالی جمہوریت کے لیے مظاہرے کرتے، کرامت علی جن کا لندن اکثر آنا جانا رہتا تھا ان کی تجویز پر ہم نے "پلیجو ریلیز کمیٹی" قائم کی۔ پلیجو صاحب کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل پہلے ہی"ضمیر کا قیدی" قرار دے چکی تھی۔ اب بحالی جمہوریت کے ساتھ ساتھ پلیجو رہائی کی گونج بھی یہاں مقبول ہونے لگی۔ ایم آر ڈی کی تحریک بظاہر تو کچل دی گئی تھی مگر اس نے ضیاالحق کے استبدادی مارشل لاکی نہ صرف کمر توڑ دی تھی بلکہ مغربی حکومتوں کے بھیانک چہرے کو بھی ان کے عوام اور سول سوسائٹی کے سامنے بے نقاب کر دیا تھا۔ نتیجتاً پاکستان میں جبر کچھ کم ہوا۔ بتدریج ایم آر ڈی کے رہنمائوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پلیجو صاحب بھی رہا ہونے کے کچھ عرصے بعد لندن آگئے۔غالباً یہ اکتوبر1989کی بات ہے۔ ہیتھرو ائیر پورٹ پر کرامت اور میں نے ان کا استقبال کیا اور سیدھا اپنے گھر لے آیا۔ ان سے یہ میری نہ ختم ہونے والی پہلی ملاقات تھی جو ان کی آخری سانس تک قائم رہی۔ برطانیہ میں ان کا ہمارے ہاں قیام کئی ماہ پر محیط رہا اور یہاں بالعموم ان کے ارد گرد میرے جیسے سرائیکیوں اور پنجابیوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا۔ بقول پرویز طاہر " سرور باری اور فرزانہ کا گھر اپنی طرز کا پیرس کمیون بنا ہوا تھا" ۔ پلیجو صاحب کی جرأت مندانہ جدوجہد کے پرستاروں کا ہمارے ہاں تانتا بندھا رہتا تھا، ان سے ملنے کے بعد لوگ ان کے وسیع مطالعے، علم اور کاٹ دار و منفرد تجزیے کے باعث ان کے گرویدہ ہوئے بنا واپس نہ جاتے تھے۔ جلد ہی برطانیہ میں عوامی نیشنل پارٹی جلاوطنوں کی سب سے زیادہ موثر اور متحرک جماعت بن کر ابھری۔ ہم نے پلیجو صاحب کی تحریک پر لندن میں بلھے شاہ کا دن منایا، جس سے ان کے علاوہ محترم عطااللہ مینگل، جناب شیر محمد مری المعروف جنرل شیروف، محترم محمد سرور سفیر افغانستان، شاہد ندیم، سردار مظہر، جمال شاہ اور کئی دوسرے جلاوطن سیاستدانوں نے خطاب کیا۔ مزید برآں افغانستان میں امن کا قیام، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور قرارداد لاہور کے مطابق صوبائی خود مختاری کے حصول پر قراردادیں بھی پاس کی گئیں جو ان کی پاکستانی قومتیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی ایک ثقافتی کوشش تھی۔ 17 جنوری1987 کو پلیجو کے دیرینہ ساتھی اور عوامی تحریک کے چوٹی کے راہنما جناب فاضل راہو کے شہید کئے جانے کی خبر بجلی بن کر گری۔ پلیجو صاحب صدمے سے ہل کر رہ گئے ۔ اسکے باوجود پلیجو صاحب کی تحریک پر ہم سب چند گھنٹوں بعد پاکستان ہائی کمیشن کے سامنے ایک بڑا مظاہرہ کر رہے تھے جس میں مختلف جماعتوں نے بھر پور شرکت کی۔ پلیجو صاحب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک آدھ تلخ مگر سبق آموز واقعات کا بھی ذکر بھی نہایت ضروری ہے۔ یہ غالباً 1990کی بات ہے۔ اس مرتبہ وہ شاہد گوگی کے ہاں قیام پذیر تھے اور ان کے ساتھ ایاز لطیف بھی لندن آئے تھے۔ وہ روزانہ سہ پہر کو ہمارے ہاں آتے اور دیر گئے تک محفل جاری رہتی ایک شام پلیجو صاحب کے ساتھ بحث ہوتے ہوتے بات تلخ کلامی تک جا پہنچی۔ پلیجو صاحب اور ایاز ناراض ہوکر چلے گئے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بعد ازاں میں غور کرتا رہا کہ کہیں میں غلط تو نہیں تھا؟ رات بھر میں سوچتا رہا کہ پلیجو صاحب کے ساتھ تعلق ختم ہو چکا،گیارہ بجے صبح شاذونادرہی کبھی ہمارے فلیٹ کی گھنٹی بجتی تھی، آج جب گھنٹی بجی تو کچھ تعجب ہوا، دروازہ کھولتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ پلیجو صاحب اور ایاز کھڑے ہیں۔ہم بغل گیر ہوئے، اس سے پہلے کہ میں معذرت کرتا پلیجو صاحب پہل کر چکے تھے، انہوں نے فصیح وبلیغ انداز میں ذاتی اور نظریاتی انا میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی انا کو پس پشت ڈال کر واپس آئے ہیں۔ قارئین اس واقعہ سے اپنی مرضی کا نتیجہ نکال سکتے ہیں مگر اس کے بعد میں ان کی بڑائی کا ہمیشہ کے لیے قائل ہو گیا۔ اس دن مجھے اس بات کا احسا س ہوا کہ لیڈر کا محض زیرک ، عالم ، حکمت کار ہونا ہی کافی نہیں، اسے ایک اچھا انسان بھی ہونا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رہنما سب کو ان کی اہمیت کا احساس دلاتا رہے ، یہ خوبی پلیجو صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مگر جب وہ تنقید کرتے تو اس میں بھی کوئی رعایت نہیں کرتے تھے چاہے وہ ان کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ایک اور مزے کا واقعہ ہے کہ پلیجو صاحب کو لندن آئے کئی ہفتے بیت چکے تھے۔ مدیحہ گوہر اور خالد بسرا ہمارے گھر سے بمشکل سو قدموں کی دوری پر رہتے تھے۔ ایک شام انہوں نے صرف پلیجو کو کھانے پر بلایا۔ گو کہ پلیجو صاحب میرے ساتھ انکے ہاں آتے جاتے رہے تھے پھر بھی میں نے انکو راستہ بتانا ضروری سمجھا اور ساتھ مدیحہ گوہر کو فون کر دیا کہ پلیجو آپکی طرف آنے کیلئے نکل پڑے ہیں۔ تقریباََ 20 منٹ بعد مدیحہ کا فون آیا کہ پلیجو نہیں پہنچے اور چند لمحوں کے بعد وہ واپس آ گئے اور کہا مجھے انکا گھر نہیں ملا تم مجھے وہاں چھوڑ کے آئو۔ میں نے طنزاً کہا آپ انقلاب کیسے لائیں گے۔ اگلی صبح پلیجو صاحب نے لندن کے سٹریٹ میپس (جس کے بغیر اجنبی ایسے ہی ہوتا جیسے سپاہی میدان جنگ میں تلوار کے بغیر )کا ہر قسم کا ایڈیشن، لندن انڈر گراونڈ اور بسوں کے روٹس وغیرہ اکٹھے کئے۔ہماری بیٹھک میں ہر طرف نقشے بکھرے ہوئے تھے، لگ رہا تھا آج انقلاب کا بگل بجنے کو ہے۔ دو دن کے مطالعے کے بعد پلیجو صاحب نے مجھے کہا کہ میں پریکٹیکل ٹیسٹ دینے کو تیار ہوں۔ میں نے انکو دو دوستوں کے ایڈریس دئیے اور انکو بتایا کہ وہ اپنے گھر پر پلیجو کا انتظار کریں اور انکو لینے کے لئے ہر گز ٹیوب اسٹیشن مت جائیں۔ پلیجو دونوں ٹیسٹوں میں سو بٹا سو نمبر لیکر پاس ہوئے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے : In order to achieve victory, one must deploy all available energy and mind. پلیجو نے ساری عمر جس شعبہ میں قدم رکھا اس میں کمال کر دکھایا اور یہی انکی کامیابی کی وجہ تھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو بڑے راہنما کی تعمیر کرتے ہیں۔ اتنی انرجی ان میں کہاں سے آتی ہے کہ و ہ تھکتے اور ڈرتے نہیں؟نامور ماہر نفسیات kets de vries Manfred کے بقول ،عزم ہمیشہ بچپن اور نوجوانی کے تصورات سے جنم لیتا ہے۔پھر ایک تاریخ دان کہتے ہیں کہ تجربات سے انسان خود کو دریافت کرتا ہے۔ایک کامیاب لیڈر عدم تحفظ کے احساس سے لڑتا اور اپنی شخصیت کو کچلنے والے عناصر کا مقابلہ کر کے تبدیلی لاتا اورسرخرو ہوتا ہے۔ جنگ شاہی کا سماجی اور سیاسی ماحول، انگریزی نوآبادیت اور اسکے پٹھو جاگیرداروں کا جبر، آزادی کی گونج اور سوشلزم کا مقبول ہوتا نظریہ، پلیجو کے بچپن اور لڑکپن پر یقینا اثر انداز ہوئے ہوں گے اور انہی تضادات کے ادراک نے ان کے اندر انرجی پیدا کی ہو گی ۔پلیجو صاحب کے پائے کا کوئی سیاستدان کب ابھرے گا؟ عوامی تحریک اگر ان کے پڑھائے ہوئے سبق کو تخلیقی طریقے سے عمل میں لاتی رہے تو ان کے وژن کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ پلیجو صاحب جیسے بڑے انقلابی رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔