سات جون کو پلیجو کی چوتھی برسی انقلابی جوش و خروش سے انکے آبائی گاوں جنگ شاہی میں منائی گئی۔ جس میں انکے ہزاروںسا تھیوں نے شرکت کی۔ میں پوری کوشش کے باوجود شریک ہونے سے قا صر رہا۔ پلیجو کی میراث(legacy)) تو ہمہ جہت ہے مگر بقول عطا راجر، پلیجو بنیادی طور پر ایک انسان دوست شخصیت تھے۔ انکی نظر میں انسا نیت سازی کے بغیر انقلاب برپا کرنا محض انسانیت کا قتل ہے۔ انکے تیار کیے ہوے افراو سے ملتے ہی آپکو احساس ہوتا ہے اگرپاکستان کو ایک انسان دوست، عوامی، جمہوری اور خوشحال ملک بنانا ہے تو پلیجو کی تعلیمات اور انکی تربیت میں رہنے والے لوگ راہنمائی کر سکتے ہیں۔ پلیجو کی وفات کے بعد ان کے ساتھیوں، دوستوں اور اخبارات نے انکی انقلابی سیاست، ادبی خدمات اور شخصیت کے بارے کھل کر لکھا۔ محترمہ کلاونتی راجہ نے اسے کتاب کی شکل ڈھال دیا۔ یہ مضمون اسی کتاب کیلئے تحریر کیا گیا تھا جو چند ترمیمات کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ "رسول بخش پلیجو۔ نشان جہد مسلسل" کے نام سے یہ کتاب پلیجو صاحب کی وفات پر ان کے بارے میں لکھے گئے اخباری اداریوں، مضامین، دو انٹرویوز اور درجنوں تعزیتی پیغاما ت پر مشتمل ہے۔ یہ ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک منفرد کاوش ہے ۔پلیجوصاحب کیا تھے؟’ اس کے بارے میں کئی آرا پائی جاتی ہیں ،مگراس کتاب میں شامل مضامین میں مجموعی طور پر اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پلیجو صاحب نے حکومتی عہدے کے حصول کے لیے کبھی ا پنے اصول قربان نہیں کیے۔ میں خود بھی ایک "پر کشش آفر" کا گواہ ہوں جسے انہوں نے ٹھکرا دیا تھا۔ یہ2002کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل کی بات ہے جب ایک دن پلیجو صاحب کا فون آیا کہ وہ کل اسلام آباد آ رہے ہیں اور میں انہیں ایئر پورٹ سے خود لینے آئوں۔ وہ جب بھی اسلام آباد آتے تھے تو میرے ہاں ہی ٹھہرتے تھے لیکن انہوں نے پہلے کبھی مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ میں انہیں خود لینے ایئرپورٹ آوں۔ اکثروہ ایئر پورٹ سے سیدھے کتابوں کی دکانوں پر جاتے اور ڈھیروں کتابیں خرید کر لے جاتے۔ لیکن آج انہوں نے ایئرپورٹ پر کچھ تمہید کے بعد کہا کہ میں انہیں سیدھا وزیراعظم ہاوس لے جائوں۔دراصل ان کی جنرل پرویز مشرف سے ملاقات طے تھی۔ ایک سینئر فوجی پلیجو صاحب کو میٹنگ کے لیے اندر لے گیا اور مجھے انتطارگاہ میں بیٹھنے کا کہا گیا۔ کچھ دیربعد پلیجو صاحب نے ایک چٹ بھیجی کہ آپ چلے جائیں اور یہ کوئی دوپہر دو اڑھائی بجے کی بات ہے۔ پلیجو صاحب جب شام سات بجے تک بھی نہ آئے تو مجھے کچھ پریشانی لاحق ہوئی۔ چونکہ پلیجو صاحب اپنے نقطہ نظر کے دفاع کے لیے پوری شدومد کے ساتھ بحث کرنے پر یقین رکھتے تھے، میں نے سوچا آج بھی یہی ہوا ہو گا، اور حقیقت میں ہوا بھی یہی۔ پلیجو صاحب نے بتایا کہ جنرل مشرف چاہتا تھا کہ عوامی تحریک الیکشن میں حصہ لے اور انتظامیہ اسے پوری مدد فراہم کرے گی۔ ایک ایک، دودو نشستوں پر جمہوریت بیچ کر آنے والے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس پلیجو صاحب نے کہا کہ صوبوں کے درمیان پانی اور ریاستی اداروں کی ملازمتوں کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے دیں، ہم الیکشن لڑے بغیرآپ کی حمایت کریں گے۔ اس مجموعے میں شامل مضامین کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ پلیجو صاحب محض ایک مد برسیاستدان ہی نہیں تھے بلکہ بیدار مغزمفکر،منفرد لکھاری، کاٹدار نقاد، حکمت ساز، سحرانگیز مقرر، یکسر بدل دینے والے (transformative) استاد بھی تھے۔ اس کے باوجود وہ ہمہ وقت خود کو ایک طالب علم سمجھتے تھے۔ انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔۔ وہ یہ سب کچھ صرف اور صرف سماجی تبدیلی (انقلاب)، مظلوم طبقات کی جبر واستحصال سے نجات اور انکے راج کی راہ ہموار کرنے کے لیے بنے تھے۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ بنے بغیر انقلابی سیاست نا ممکن تھی۔ اسکی ابتدا انہوں نے اپنے گھر سے کی تھی۔ ان کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ خاندان کا ادارہ جبر کا منبع ہے اور اسے جمہوری اور با شعور انقلابی بنائے بغیر انقلابی سیاست ناممکن ہے۔ اس کتاب کے کئی مضامین سندھیانی تحریک کو انکی بہترین اور کامیاب کاوش قرار دیتے ہیں۔ کئی مصنفین نے سجاگ بار تحریک اور سندھی شاگرد تحریک کا ذکر کیا ہے۔ ان تنظیموں کے ذریعے لاکھوں خاندان اور انکی لڑکیاں،عورتیں صدیوں پرانی دقیانوسی ثقافتی گھٹن سے آزاد ہوگئیں۔ پلیجوصاحب اور عوامی تحریک اس سماجی انقلاب کو اقتدار میں بدلنے میں یقیناً نا کام ہوئے، گو الیکشن لڑے مگر شکست کھائی لیکن شعوری آزادی کا تو کوئی ثانی نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں "غلامی کا احساس آزادی کا ضامن ہے"۔ یہی سندھ کو براہ راست اور پاکستان کو بلواسطہ پلیجو صاحب کی دین ہے۔ کاش کہ سندھ پلیجو صاحب کو پنجاب میں کام کرنے کی مہلت دیتا تو آج ملک کی سیاسی اور انسانی ترقی کا معیار بہت بہتر ہوتا۔ پلیجو صاحب کے بارے میں کچھ مزید کہنے کی تو اس کتاب نے بظاہر کم گنجائش چھوڑی ہے ، مگر وہ کیا نہیں تھے؟’ میں اسی ننھی سی گنجائش پر ہی استفادہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ جیسے کہ ان کے مداحین اور ناقدین دونوں نے لکھا ہے کہ وہ ہمہ جہت خصوصیات کے حسین امتزاج کے نایاب پیکر تھے اور ان کی ہر جہت اور صلاحیت غیر معمولی بلندی کو چھوتی نظر آتی ہے۔ اس کا مظاہرہ ان کی تحریروں، تقریروں اور لیکچروں میں عیاں ہے۔ ان میں مایوس افراد میں تحریک اور تنظیم کی روح پھونکنے کی مہارت بلا کی تھی۔ ان میں ‘سٹیٹس کو’ کو چیلنج کرنے کی جرأت تھی اور دانائی بھی۔ مثال کے طور پر سندھیانی تحریک کے لیے عورتوں کو سیاسی جدوجہد کا ہراول دستہ بنا دینا، ادبی اور ثقافتی محاذ پر لطیف بھٹائی کے اوپر چڑھائی گئی ردِ دنیا کی صوفیانہ ملمع سازی کوانقلابی رنگ میں رنگنا، مزید یہ کہ انہوں نے جاگیردارنہ اور سرمایہ دارانہ جمہوری سیاست میں ایسے حصہ لیا کہ اس سے انقلابی سیاست کو مہمیز ملی۔ مثلاً ایم آر ڈی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرنا یقیناً اس کو پلیجو صاحب کی تخلیقی سیاست قرار دیا جانا چاہیے ۔ (جاری ہے)