ہمارے ملک میں علاج معالجہ کے نظام میں بے شمار خامیاں‘ کمزوریاںہیں جو سب کو معلو م ہیں لیکن کورونا وبا کے باعث یہ زیادہ اجاگر ہوگئی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں کہ انفیکشن سے حفاظت کے لیے خود ان کے پاس ضروری حفاظتی لباس اور دیگر سامان نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر کسی ایمرجنسی سے نپٹنے کی غرض سے صوبائی حکومتیں بڑے شہروں میںعارضی فیلڈ ہسپتال بنارہی ہیں کیونکہ مستقل ہسپتالوں کی گنجائش بہت کم ہے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان عارضی ہسپتالوں میں کام کرنے کے لیے پوری تعداد میں ڈاکٹر ‘ نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کہاں سے آئے گا؟ پہلے سے جو ہسپتال موجود ہیں ان میں طبی عملہ ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں۔ چند روز پہلے لاہور کے سب سے بڑے میو ہسپتال سے ویڈیو کلپ سامنے آیا کہ انتہائی نگہداشت کے ایک وارڈ میں مریض اکیلے لیٹے ہیں‘ ان کے پاس نہ کوئی نرس ہے ‘ نہ ڈاکٹر۔ایک مریض درد سے تڑپ رہا ہے‘ اسکی شنوائی کرنے کو کوئی اسٹاف موجود نہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اگلے روز گلہ کیا کہ حکومت نے ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور بند کردیے ہیں‘ صرف کورونا کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ باقی مریض کہاں جائیں۔ درحقیقت ‘طویل عرصہ سے پاکستان میں علاج معالجہ کا نظام ڈاکٹروں اور نرسوںکی شدید قلت کا شکار ہے لیکن ہر حکومت اس شعبہ کوبُری طرح نظر انداز کرتی آئی ہے۔ عالمی ادارہ ٔصحت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق پاکستان ایسے کم ترقی پذیر ملک میں ایک ہزار آبادی کے لیے اوسطاً ایک میڈیکل ڈاکٹر ہونا چاہیے ورنہ اگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو سامنے رکھا جائے توایک ہزار آبادی کے لیے اوسطاً دوڈاکٹر ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں عملی طور پرڈیڑھ ہزار آبادی کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔ یُوں تو ملک میں سوا دو لاکھ سے زیادہ ڈاکٹر رجسٹرڈ ہیںلیکن ان میں ساٹھ ہزار ایسی خواتین ڈاکٹر بھی شامل ہیں جو ایم بی بی ایس کرنے کو بعد گھر پہ بیٹھ گئی ہیں ‘ انہوںنے ڈاکٹر کی حیثیت سے پریکٹس نہیں کی۔چالیس ہزار ڈاکٹر ملک چھوڑ کر امریکہ‘یورپ اور عرب ممالک جا چکے ہیں جہاں انہیں بہتر معاوضہ اور حالات ِکار دستیاب ہیں۔اسطرح ملک کی بائیس کروڑ آبادی کوعملی طور پر صرف سوا لاکھ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہیں‘ وہ بھی زیادہ تر بڑے شہروں میں۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تعداد اور بھی کم ہے ۔ دیہات میں تو عام ڈاکٹر نہیں جاتے ‘ اسپیشلسٹ ڈاکٹر تو دور کی بات ہے۔ کئی شعبوں جیسے انس تھیزیا (سرجری کے دوران میںبے ہوشی)کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر شہروں میں بھی ضرورت سے کم ہیں کیونکہ وہ بڑی تعداد میں بیرون ملک چلے گئے۔پاکستان کی نصف آبادی کوبہت ابتدائی یا بنیادی نوعیت کے علاج معالجہ کی سہولت بھی حاصل نہیں۔ بلوچستان‘ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے دیہات میں تو صورتحال افسوس ناک حد تک خراب ہے۔ علاج معالجہ کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی نرسیں ہوتی ہیں جو ڈاکٹروں سے زیادہ مریض کی دیکھ بھال کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ڈاکٹرمرض کی تشخیص کرتے‘ دوا تجویز کرتے ہیں لیکن نرسیںسارا وقت مریض کے پاس رہتی‘ اسکی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ہسپتال کا پورا نظام نرسوں کے سر پر کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ آج تک اس مقدس پیشہ کو نہ تو اہمیت دی گئی نہ وہ عزت و احترام جسکا یہ حق دارہے۔بین الا قوا می معیار یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ چار نرسیںکام کریں۔ ہمارے ہاں تین ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے کواوسطاً دو نرسیں دستیاب ہیں۔ جونرسیں موجود ہیں ان میں زیادہ تر اچھی تربیت یافتہ نہیں کیونکہ اس شعبہ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرکے وہ لڑکیاں آتی ہیں جن کا تعلیمی ریکارڈ اچھا نہیں ہوتا۔ لائق لڑکیاں اس شعبہ میں نہیں آتیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آبا دکی نرسوں نے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پچیس پچیس سال سے ترقی نہیں دی گئی ۔ اس وقت پاکستان بھر میں تقریباًاسیّ ہزار نرسیں رجسٹرڈ ہیںیعنی اُن کی تعداد ڈاکٹروں سے بھی کم ہے۔ ملک کو کم سے کم دس لاکھ مزید نرسوں کی ضرورت ہے۔ نرسوں کے اسکولوں اور کالجوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ان اداروں میں نہ اساتذہ کی تعداد پوری ہے‘ نہ عمارتیںاچھی حالت میں ہیں ‘ نہ مناسب فرنیچر ہے‘ نہ عملی تربیت دینے کودرکار طبی آلات‘ نہ لیبارٹریاں۔ یہ صرف برائے نام اسکول اور کالج ہیں۔ کئی سائنسی مضامین کے لیکچرر میسر ہی نہیں ہوتے۔ ان اداروں میں اساتذہ کو مقرر کرنے کا کوئی باضابطہ طریقہ کار نہیں ہے۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ حضرات اپنی پسند‘ ناپسند کی بنیاد پراپنے ہسپتالوں سے وابستہ ان اداروں میں کچھ نرسوں کو استاد یا پرنسپل کے طور پر تعینات کردیتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل نیم تربیت یافتہ نرسیں ہسپتالوں میںجا کر مریضوں پرتجربے کرکے کچھ کام سیکھ لیتی ہیں۔ جو نرسیں چند اچھے پرائیویٹ کالجوں سے معیاری تربیت حاصل کرلیتی ہیں وہ بیرون ملک چلی جاتی ہیں ۔ ملک میں علاج معالجہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صحت کے شعبہ کے ترقیاتی بجٹ میںنمایاں اضافہ کرے۔ حکومت ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ساتھ ایک میڈیکل کالج بنائے ‘ ہر تحصیل ہسپتال کے ساتھ ایک نرسنگ اسکول بنائے تاکہ ملک میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی قلت دور ہوسکے۔ نرسنگ اسکولوں ‘ کالجوں کوقابل اساتذہ‘ طبی آلات اور دیگر مکمل سہولیات فراہم کی جائیں۔ نرسوں کی ترقی کا باضابطہ نظام بنایا جائے۔ عوام کو ہیپا ٹائٹس ‘ڈینگی اور کورونا ایسی وبا ؤں کا سامنا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال بہت مہنگے اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ عوام کوتسلی بخش علاج معالجہ اسی صورت مہیاکیا جاسکتا ہے جب ملک میں قابل ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد ضرورت کے مطابق ہو۔اگرحکومت درست پالیسی بنا کر اس پرآج کام شروع کرے گی تو پانچ سال بعد صحت کے شعبہ میں بہتر ی نظر آئے گی۔