گزشتہ روز معروف سرائیکی شاعر، دانشور ارشاد تونسوی وفات پا گئے ، بلاشبہ ان کی وفات سے ادب کی دنیا میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے جو مدتوں بعد بھی پُر نہ ہو سکے گا ۔دل اس لئے بھی اداس ہے کہ وہ ایک عہد ہونے کے ساتھ عہد ساز شخصیت بھی تھے ۔مرحوم ارشاد تونسوی کا شمار جدید لہجے کے بانی شعراء میں ہوتا ہے۔ سرائیکی زبان میں ان کے دو شعری مجموعے ’’ندی ناں سنجوک اور عشق اساڈٖا دین‘‘ شائع ہو چکے ہیں اور آپ کو عظیم خدمات پر اکادمی ادبیات ایوارڈ ملا۔ مرحوم ارشاد تونسوی نے اپنے لواحقین میں ایک بیٹا شہریار اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑے ہیں۔ڈسٹرکٹ منیجر اوقاف کی حیثیت سے انہوں نے ریٹائرمنٹ ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی وفات تک لکھنے پڑھنے کے کام میںمشغول رہے۔ وفات سے پہلے ارشاد تونسوی سرائیکی زبان میں ناول لکھ رہے تھے ۔ ایک ملاقات پر میرے سوال کہ جدید لہجے کے شاعر رفعت عباس اور آپ ناول لکھ رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ارشاد تونسوی نے کہا کہ جب قوموں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو بڑے بڑے ناول لکھے جاتے ہیں ،میرا بڑائی کا دعویٰ نہیں مگر وسیب میں ناول آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ارشاد تونسوی سرائیکی کے بہت بڑے شاعر ہونے کے باوجود درویش صفت انسان تھے ، شہرت سے دور بھاگتے تھے کسی طرح بھی گروپ بندی کا شکار نہ تھے اور نہ ہی اس پر یقین تھا۔انہوں نے کبھی خود کو بڑا بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی اُن کا انداز لیڈروں والاتھا ، شاعری کے ساتھ وہ نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے ۔ انہوں نے سرائیکی میں مضامین لکھے ، ایک مضمون ’’سچ کوڑ‘‘ میں انہوں نے تاریخی حوالوں کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا۔ وسیب کا باشندہ ہونے کی بناء پر ان کو اپنے وسیب کی محرومی کا پورا پورا احساس بھی تھا ۔ ارشاد تونسوی نے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی محرومی کا بھی ذکر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی مثریے میں طاقت اُس بناء پر ہے کہ وسیب خود انہی طرح کے حالات کا شکار ہے۔ ایک مضمون ’’نواں عہد نامہ‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ صحیفوں کا کوئی فائدہ نہ ہوتا تو لوگ انہیں کب کے بھول چکے ہوتے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ارشاد تونسوی نے کبھی طبقاتی نظام کے خلاف ایجنڈا نہیں اٹھایا اور نہ ہی احتجاجی مظاہرے کئے البتہ وہ بنیادی طور پر طبقاتی نظام کے خلاف تھے اور وسیب کے سرداروں، تمنداروں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ موسیٰ اور فرعون کا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ فرعون خدا کیوں بن بیٹھا ؟ دھرتی کے نئے خدائوں کو سمجھنے کے لئے کوئی نیا عہد نامہ لکھنا ہو گا۔ ارشاد تونسوی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے دانشور بھی تھے ان کی باتوں میں دانائی اور حکمت کی باتیں پوشیدہ ہوتیں ۔ آج کے طالب علم کو ان کے بارے میں تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت پیش آئے گی ۔ بہت سے لوگوں نے اپنے بارے میں بہت کچھ لکھ کر دوسروں کے نام پر چھپوا دیا ہے مگر ارشاد تونسوی جیسے لوگوں کے بارے میں حقیقی معنوں میں تحقیق کی ضرورت ہے ۔ ارشاد تونسوی کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی ذات میں جو شائستگی،لطافت اور تہذیب پائی جاتی ہے ان کی نثر میں بھی اس کا عکس دیکھا جاسکتا ہے ۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کی مٹی سے محبت ان کی تحریریوں میں رچی بسی نظر آتی ہے ۔ تونسہ شریف کو پیر پٹھان کی نگری کہا جاتا ہے ،پیر پٹھان کی نگری کا تذکر ہ وہ ایسے ایسے انداز سے کرتے ہیں جیسے آپ کے سامنے فلم چل رہی ہو اور وہ دھرتی واس ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان کو اپنی دھرتی اور اپنے وسیب سے پیار تھا کوئی شاعر بڑا ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنی مٹی اور اپنی ماں بولی سے محبت نہ کرے۔ ارشاد تونسوی خواجہ فرید کی شاعری کو لے کر عشق مجازی اور حقیقی میں جو فرق بیان کرتے ہیں وہ کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں انہوں نے خواجہ صاحب کی شاعری کے حق میں جو دلائل پیش کئے ہیں وہ بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔انہوں نے کچھ شاعروں کی شاعری اور شخصیت کا پوسٹم مارٹم بھی کیا جوکہ ادب کا حصہ ہے۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں تو اُن کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں مجھ جیسے نا چیز سے بھی محبت کرتے تھے اور ہمیشہ خلوص کے ساتھ دوستی نبھائی۔ایک موقع پر انہوں نے کہاکہ آپ سرائیکی کتابوں کی صورت میں جو خزانہ دے رہے ہیں قوم اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ میری کتاب ’’سرائیکی وسیب ‘‘کو انعام ملا تو مبارکباد کے لئے تشریف لائے اُن کا اوڑنا بچھونا ادب تھا وہ اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے ۔ارشاد تونسوی نے خطوط عزیز شاہد کے نام لکھے ان میں لفظوں کی لطافت ، عام انسان کی خواہشات اور بے بسی کا جو عالم ہے وہ وہی شخص جان سکتا ہے جنہوں نے john keatsکے خطوط کو پڑھا ہو۔ اس کے علاوہ وہ شہروں کے مسائل ، دیہاتوں کی خوبصورتی اور فطرت کو قریب سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گائوں میں جا کر بسیرا کیا حالانکہ بڑے افسر بڑے شہروں میں گھر لیتے ہیں مگر انہوں نے اپنی بستی جو کہ تونسہ سے 20سے 25کلو میٹر کے فاصلے پر ٹبی قیصرانی کے قریب ہے جا کر بسیرا کیا ۔وہ جہاں رہتے ہیں یہ سرداروں اور تمنداروں کا علاقہ ہے مگر انہوں نے آج تک کسی سردار اور تمندار کی پرواہ نہیں کی ۔ 17فروری 2021ء اُنکی وفات کا دن وسیب کے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے ، یہ حقیقت ہے کہ ہر اچھا لکھاری اپنے عہد کی تاریخ اور اپنے عہد کا مورخ ہوتا ہے ۔ ارشاد تونسوی نے رموز کی باتیں کی ہیں۔ زندگی کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کی ہے ۔ لگتا ہے کہ وہ اضطرابی کیفیت میں ہیں اور فطرت کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے مضامین میں تمام ادبی اصلاحات استعمال کی گئیں ہیں جن میں تشبیع اور استعارہ شامل ہے۔ وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ان کی بیٹے شہریار اور بہو ڈاکٹر سعدیہ کمال کا وسیب میں ایک نام ہے اور وہ ارشاد تونسوی کی طرح سرائیکی زبان و ادب کی بہت خدمت کررہے ہیں اور ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے ۔